Maktaba Wahhabi

50 - 103
۳: اس راوی کی ان محدثین کے توثیق کرنے کے باوجود اگر کوئی کہے:محمد بن ابی احمد ’’ مجھول وثقہ ابن حبان وحدہ‘‘تو اس کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ مثال نمبر ۲: ایک راوی ہے ولید بن زوران،اس کو متقدمین میں سے صرف امام ابن حبان نے ثقہ کہاہے، ان کے علاوہ امام بیہقی اور ابن حجر نے بھی اس کو ثقہ کہاہے تو اگر کوئی کہے کہ متقدمین میں سے صرف ابن حبان اکیلے نے ہی ثقہ کہا اس لئے یہ راوی مجہول ہی ہے۔تو اس کی بات غلط قرار دی جائے گی اور اس میں بھی صحیح بات یہ ہے کہ اس راوی کو ابن حبان کے ساتھ بیہقی اور ابن حجر نے بھی ثقہ کہاہے، جو دونوں اگرچہ متاخرین ہیں لیکن انھیں بھی رواۃ پر حکم لگانے کا ملکہ تامہ موجود تھا، بلکہ متاخرین کو کچھ نہ سمجھنا اور یہ کہہ کر ان کی خدمات جلیلہ پر پانی پھیر دینا کہ وہ متاخرین ہیں، انتہائی خطرناک معاملہ اور منھج ہے۔ متقدمین ہوں یا متاخرین، ان سے دلیل کی بنا پر اختلاف ہو سکتا ہے۔ مسئلہ اصولِ حدیث (مثلا حسن لغیرہ )ہو یا رواۃ کی توثیق و تجریح دونوں جگہ پر یہ فرق درست نہیں مثلا حسن لغیرہ کو امام بیہقی، ابن حجر وغیرہ حجت تسلیم کرتے ہیں تو اس کو حجت ہی تسلیم کیا جائے گا (یاد رہے کہ یہ بطور مثال بیان کیا ہے ورنہ ان سے پہلے بھی بہت سے محدثین سے حسن لغیرہ کا حجت ہونا ثابت ہے، تفصیل آگے بیان کی جائے گی۔) مثال نمبر ۳: ام محمد راویہ کو ابن حبان اور ابن عبدالبر نے ثقہ کہاہے، اس راویہ کو ثقہ ہی مانا جائے گا اور اس کی حدیث صحیح ہو گی،اگر کوئی کہے کہ ابن عبدالبر متاخر ہیں تو اس کی بات مردود ہو گی کیونکہ متاخرین اور متقدمین کا یہ فرق درست نہیں ہے۔ہم انھیں تین مثالوں پر اکتفا کرتے ہیں ورنہ مثالیں تو اور بھی بہت زیادہ ہیں۔ امام الجرح والتعدیل شیخ الاسلام محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:اور حافظ ذہبی نے بھی اس کے متعلق ’’وثقہ‘‘کہاہے،اس لئے صرف ابن حبان کی توثیق نہیں رہی بلکہ حافظ ذہبی
Flag Counter