Maktaba Wahhabi

110 - 128
حافظ ابن حجر نے کہا:اگر مجہول الحال راوی جرح و تعدیل سے خالی ہو اور اس کا شیخ اور شاگرد دونوں ہی ثقہ ہوں اور اس نے کوئی منکر خبر بیان نہ کی ہو تو وہ ابن حبان کے نزدیک ثقہ ہے۔اس قسم کے رواۃ کی تعداد الثقات لابن حبان میں کافی ہے۔[1] حافظ ذہبی موقظہ (ص:۷۸)میں لکھتے ہیں:متاخرین میں کئی جماعتوں کے ہاں ثقہ کا اطلاق مجہول الحال راوی پر مشہور ہے۔اسے مستور بھی کہتے ہیں اور’’محلہ الصدق ‘‘اور ’’شیخ‘‘کے لفظ سے بھی ذکر کرتے ہیں۔ان اقوال پر تبصرہ کرتے ہوئے فاضل بھائی ابوالمحبوب انور شاہ الرا شدی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:میں کہتا ہوں کہ یہ اس صورت میں ہے کہ اگر اس نے کوئی منکر حدیث بیان نہ کی ہو، یہی بات خود حافظ ذہبی نے بھی دوسری جگہ کہی ہے، یعنی ’’عدم نکارت ‘‘کی شرط لگائی ہے۔آپ میزان لاعتدال میں مالک بن الخیر کے ترجمے میں فرماتے ہیں:والجمہور علی ان من کان من المشائخ قد روی عنہ جماعۃ، ولم یأت منکر بما ینکر علیہ ان حدیثہ صحیح۔ علامہ معلمی یمانی رحمہ اللہ نے الثقات کے راویوں کو پانچ درجوں میں تقسیم کیا ہے۔[2] تنبیہ: امام ابن حبان سے بعض رواۃ میں تساہل ہوا ہے کہ انہیں الثقات میں بھی ذکر کیا ہے اور انھیں المجروحین میں بھی لے آئے ہیں،حالانکہ الثقات میں صرف ثقہ راوی بیان کیے ہیں اور المجروحین میں ضعیف۔بندہ ناچیز نے توفیقِ الہی سے مرکز التربیۃ الاسلامیہ فیصل آباد میں دورانِ زمانہ طالب علمی شیخنا المحدث ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کے ایماء پر’’ البرھان فی تناقضان ابن حبان‘‘ کے نام سے ایک مقالہ لکھا تھا جس میں ایک سو ایسے راوی جمع کیے تھے جو امام ابن حبان رحمہ اللہ الثقات میں بھی لے آئے ہیں اور المجروحین میں بھی۔ ہمارے فاضل دوست راشدی خاندان کے چشم و چراغ سید انورشاہ راشدی حفظہ اللہ نے اپنی زیر ترتیب کتاب ’’علم حدیث کوکھلواڑ اور بازیچہ اطفال بنانے کی مذموم کاوش‘‘ میں امام ابن
Flag Counter