Maktaba Wahhabi

26 - 128
لیکن اگر تاریخ کا تعین نہ ہو سکے اور یہ تعین بھی نہ ہو کہ پہلے والا قول کونسا ہے ؟ تو پھر درج ذیل قواعد پر عمل کیا جائے گا: پہلا قاعدہ: دونوں اقوال پر غور کرکے جمع و تطبیق دی جائے گی،مثلا ضعف کی قسموں پر غور کریں گے کہ وہ ضعف نسبی ہے یا مطلق ؟ دوسرا قاعدہ: اگر دونوں اقوال میں تطبیق ممکن نہ ہو تو قرائن کی بنیاد پر ایک قول کو دوسرے پر ترجیح دی جائے گا۔قرائن کی مختلف قسمیں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ان دو نوں اقوال میں اس قول کو لیا جائے گا جس کو نقل کرنے والا اپنے شیخ کے ساتھ زیادہ عرصہ رہا ہے مثلا عباس الدوری نے امام ابن معین کے ساتھ بہت لمبا وقت گزارا۔یا زیادہ معتبر راوی کے قول کو لیا جائے گا۔ تیسرا قاعدہ: تعدیل کو ترجیح دی جائے گی اور جرح کو کسی مخصوص امر پر محمول کیا جائے گا۔ چوتھا قاعدہ: بسااوقات ثقہ سے مراد تعدیل کی گواہی ہوتی ہے کہ یہ راوی کذاب یا متہم نہیں ہے اور ضعیف سے مراد ضبط ہوتا ہے یعنی اس کا ضبط درست نہیں ہے۔[1] سوال:متشدد ضعیف کہے اور متساہل ثقہ تو کس کی بات لی جائے گی ؟ جواب: متشدد کے مقابلے میں متساہل ہو تو متشدد کی بات لی جائے گی۔[2] سوال:کیا متشددین، معتدلیل اور مستاہلین کی درجہ بندی قبول کی جائے گی ؟ جواب:جی ہاں۔جو اس درجہ بندی کا اعتبار نہیں کرتا وہ بہت بڑی غلطی پر ہے۔ سوال:متشدد کسی کو کہے ثقہ اور معتدل کہے ضعیف تو ؟ جواب: اس موقع پر حافظ ابن حجر راوی کو صدوق کہتے ہیں۔[3]
Flag Counter