Maktaba Wahhabi

95 - 128
رہائشی تھی اسی وجہ سے اس طرف منسوب ہوئے۔ اساتذہ: آپ نے اس قدر زیادہ شیوخ سے استفادہ کیا جن کا شمار ناممکن ہے، ان کے چند مشہور اساتذہ درج ذیل ہیں:ابوالقاسم بغوی، ابوبکر بن ابی داود،یحیی بن صاعد،ابن قانع صاحب معجم الصحابہ اور اسماعیل بن محمد الصفار وغیرھم تلامذہ:ابونعیم الاصبھانی، ابوبکر البرقانی، امام حاکم صاحب المستدرک، ازہری، خلال جوہری، تنوخی،عتیقی،قاضی ابوالطیب الطبری،اور حافظ عبدالغنی المقدسی وغیرھم۔ علمی سفر: آپ نو سال کے تھے کہ آپ نے علم حدیث حاصل کرنا شروع کر دیا تھا۔ آپ کے ساتھی یوسف القواس کہتے ہیں کہ ہم جب امام بغوی رحمہ اللہ کے پاس جاتے تو دارقطنی ہمارے پیچھے پیچھے ہوتے،ان کے ہاتھ میں روٹی ہوتی جس پر سالن رکھا ہوا ہوتا تھا۔۔۔اگر ان کو کلاس میں نہ بیٹھنے دیا جاتا تو یہ باہر بیٹھ کر روتے۔[1] آپ نے فقہ شافعی اپنے استاد ابوسعید اصطخری سے پڑھی، اور آپ نے منطم طریقے سے امام بغوی سے پڑھا، لوگوں کی آپ سے امیدیں وابستہ تھیں کہ آپ دارالقطن کے قاری بنیں گے لیکن اللہ تعالی نے انھیں محدث بنا دیا۔آپ نے علم کے حصول کے لئے تمام علمی مراکز کا سفر کیا خصوصا کوفہ، بصرہ،واسط، تنیس،شام، مصر، خوزستان، مکہ اور مدینہ۔ تصانیف: آپ نے بہت علوم حدیث پر مشتمل قابل قدر تصانیف لکھیں جن میں چندا یک یہ ہیں: سنن الدارقطنی، کتاب العلل،الموتلف والمختلف، فضائل الصحابہ، المستجاد من فعلات الاجواد، تعلیقات الدارقطنی علی المجروحین لابن حبان،الضعفاء والمتروکون، الافراد والغرائب، ذکر اسماء التابعین وغیرھم علمی مقام و مرتبہ: آپ کی امامت و ثقاہت پر تمام محدثین کا اتفاق ہے۔والحمدللہ۔ آپ کے شاگردشیخ الاسلام ابوالطیب طاہر بن عبداللہ الطبری رحمہ اللہ نے آپ کو’’ امیر
Flag Counter