Maktaba Wahhabi

97 - 128
میں دفن ہوئے۔[1] آپ کی نماز جنازہ ابوحامد الاسفرائینی الفقیہ نے پڑھائی۔[2] امام دارقطنی کے تفصیلی حالات معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتب کا مطالعہ کریں: تاریخ لابن ماکولا (ج۱۲ص۰۴)تاریخ بغداد (ج ۱۲ص۳۴)الانساب للسمعانی (ج۲ص۴۳۸)وفیات الاعیان(ج۳ص۲۹۷)تذکرۃ الحفاظ (ج۳ص۹۹۱)البدایۃ والنہایۃ (ج۱۱ص۳۱۷)سیراعلام النبلاء (ج۱۶ص۴۴۹) امام حاکم رحمہ اللہ نے اپنے استاد محترم امام دارقطنی رحمہ اللہ سے عراقی راویوں کے متعلق لکھ کر سوالات کیے جن کے حالات انھیں بذات خود معلوم نہیں ہو رہے تھے،امام دارقطنی نے ان پر جرح و تعدیل کے لحاظ سے لکھ کر کلام کیا پھر بعد میں امام حاکم نے بالمشافہ بھی سوال کئے اور ان میں بعض وہ سوال وجواب بھی ہیں جو امام دارقطنی سے کسی اور نے کئے لیکن امام حاکم اس وقت موجود تھے ان کوبھی اس کتاب میں درج کیا ہے،ان تمام سوال و جواب کو امام حاکم نے ترتیب دیا ہے پہلے ان سوال وجواب کو لکھا ہے جو لکھ کر امام صاحب نے جواب دئیے،پھر کتاب کے آخر میں ان سوالات وجوابات کو درج کیا جو بالمشافہ کئے۔ یہ کتاب مطبوع ہے ’’سؤالات الحاکم‘‘ کے نام سے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ امام دارقطنی جرح وتعدیل کے کس قدر بلند مقام امام تھے۔ اسی طرح امام ابوعبدالرحمن السلمی نے اپنے شیخ امام دارقطنی سے سوالات کئے وہ بھی مطبوع ہیں اسی طرح برقانی کے سوالات بھی مطبوع ہیں۔ سوالات حمزہ السھمی بھی عام متداول ہیں۔ ان کتب سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ امام دارقطنی مرجع خلائق تھے اور ان کے جوابات کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ یہاں بطور فائدہ عرض ہے کہ جس طرح پہلے محدثین کے شاگرد اپنے شیوخ کو بہت ہی اہمیت دیتے تھے،ان سے جو سوالات کرتے ان کو کتابی صورت میں جمع کرتے بالکل اسی
Flag Counter