لیے اس کی مقدار مقرر شدہ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت میں فرمایا:(فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ) (اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ہے)۔]
ج: امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا:
’’میں مکہ مکرمہ میں اس قدر [شدید] بیمار ہوا، کہ موت کے قریب پہنچ گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے، تو میں نے عرض کیا:
’’یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّ لِيْ مَالًا کَثِیْرًا، وَلَیْسَ یَرِثُنِيْ إِلَّا ابْنَتِيْ، أَفَأَ تَصَدَّقُ بِثُلُثَيْ مَالِيْ؟۔‘‘
[’’یارسول اللہ! ۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ بلاشبہ میرے پاس بہت مال ہے اور ایک بیٹی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں، کیا میں اپنے مال کا دو تہائی صدقہ کردوں؟‘‘]
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لَا۔‘‘
’’نہیں‘‘
انہوں نے بیان کیا: ’’میں نے عرض کیا: ’’فَالشَّطْرُ؟۔‘‘
’’تو آدھا؟‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لَا۔‘‘
’’نہیں‘‘
میں نے عرض کیا: ’’ا َلثُّلُثُ؟۔‘‘
’’ایک تہائی؟‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اَلثُلُثُ کَبِیْرٌ، إِنَّکَ إِنْ تَرَکْتَ وَلَدَکَ أَغْنِیَائَ خَیْرٌ مِنْ أَنْ
|