Maktaba Wahhabi

288 - 346
فرمودہ الفاظ پڑھے۔انھوں نے چند حضرات کے اسماے گرامی تحریر فرمائے ہیں کہ ان سے رابطہ قائم کیا جائے تو مولانا احمد الدین کے حالات، ان کے مناظرات کے واقعات اور ان کے بیان کردہ علمی نکات کا پتا چل سکتاہے۔خود بھی انھوں نے ایک منکرِ حدیث سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا مرحوم کا ’’حدیث موسیٰ‘‘ والا نکتہ بیان کیا جو نہایت عمدہ علمی نکتہ ہے۔لیکن ان کی وفات کے بعد ان سے متعلق کسی عالمِ دین، ان کے کسی شاگرد اور ان کے کسی رفیقِ مناظرہ و وعظ نے کچھ نہیں لکھا۔مولانا کی وفات جون 1973ء کو ہوئی اور حافظ صاحب نے ان سے سات سال بعد مئی 1980ء میں سفرِ آخرت اختیار فرمایا۔لیکن سات سال کے اس طویل عرصے میں خود حافظ صاحب نے بھی ان کے بارے میں کچھ نہیں تحریر فرمایا،صرف یہی کچھ لکھا جو اوپر درج کر دیا گیا ہے۔ مولانا احمد الدین گکھڑوی علمی اعتبار سے بڑے نکتہ شناس اور استدلالی مزاج کے عالم دین تھے اور استنباطِ مسائل کی بے پناہ صلاحیت ان میں پائی جاتی تھی۔کہنا چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں کسی حد تک ’’درجۂ اجتہاد‘‘ پر فائز تھے۔افسوس ہے ان کی اس قسم کی صلاحیتوں کو کما حقہ اجاگر نہیں کیا گیا اور ہم ان کے بیان فرمودہ بے شمار علمی نکات سے محروم رہ گئے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ’’محرومی‘‘ کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ اس سوال کا جواب بڑا تلخ ہے۔میں صاف الفاظ میں عرض کروں گا کہ اس کی ذمہ داری ان سب حضرات پر عائد ہوتی ہے جو ان سے دوستی اور تلمذ کا تعلق رکھتے تھے اور ان کے ساتھ جلسوں اور مناظروں میں شرکت فرماتے تھے۔ان کی رفاقت میں سفر کرتے اور ان سے تقریریں کراتے تھے۔ان کا فرض تھاکہ ان کی مجلسی گفتگو کا ریکارڈ بھی رکھتے اور ان کے مناظروں کی تفصیل بھی ضبطِ تحریر میں لاتے۔
Flag Counter