انھیں خوب معلوم تھا کہ وہ خود بے اولاد ہیں اور ان کے بھتیجے بھانجے اور دیگر رشتے دار بے علم ہیں۔اس صورت میں تحریر وکتابت کے اصل ذمہ دار ان کے دوست احباب اور شاگرد ہی تھے۔لیکن انھوں نے اس ذمہ داری کا احساس نہ فرمایا۔ اس قسم کی باتوں کے پیش نظر میرا پھر جی چاہتا ہے کہ اپنے اہلِ علم عزیزوں اور دوستوں کی خدمت میں انتہائی ادب کے ساتھ عرض کروں کہ اپنی علمی تاریخ کو منجمد نہ کریں، جہاں تک ممکن ہو اپنی علمی مساعی کو قلم وقرطاس کی گرفت میں لانے کی کوشش فرمائیں۔ مولانا احمد الدین گکھڑوی رحمہ اللہ کے جو واقعات قارئین کرام کے مطالعہ میں آئے ہیں، ان کے حصول کے لیے اس فقیر کو بڑی تگ و تاز کرنا پڑی ہے۔دن رات لگا کر بے حد محنت سے یہ کتاب مکمل ہوئی ہے۔میں ان حضرات کا نہایت شکر گزار ہوں جو زیادہ عرصہ ان کی خدمت میں نہیں رہے، لیکن ان کے بارے میں بہت سی باتوں سے مطلع فرمایا۔ بارگاہِ الٰہی میں عاجزانہ دعا ہے کہ وہ اس مخلص ترین خادم دین کو جو احمد الدین کے نام سے موسوم تھا، جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ اللھم اغفر لہ وارحمہ وأدخلہ جنۃ الفردوس۔ ٭٭٭ |