Maktaba Wahhabi

310 - 346
اور اپنی بعض تصانیف بھی انھوں نے اس فقیر کو ارسال فرمائی تھیں، جن سے میں نے استفادہ کیا، اللہ انھیں خوش رکھے۔ اب ’’نقطہ نظر‘‘، شمارہ33(اکتوبر2012۔مارچ 2013)کے حوالے سے کتاب ’’مولانا احمد الدین گکھڑوی‘‘ پر میاں صاحب ممدوح کا تبصرہ پڑھیے۔ ’’گکھڑ منڈی(نزد گوجرانوالا)کے رہنے والے مولانا احمد دین معروف اہلِ حدیث عالم، خطیب اور مناظر تھے۔مولانا پیشے کے اعتبار سے آہن گر تھے اور مزاجاً کھرے اور ذرا سخت بھی۔اپنے پیشے کی نسبت سے اپنے مناظرانہ ذوق اور اسلوب کا اظہار ان الفاظ میں کیا کرتے تھے کہ ’’میں پھانا خوب ٹھونکتا ہوں ‘‘(ص: 59)۔اسی طرح انھوں نے جہاں بھی خطابت کی، اپنی خود داری اور غیرت طبع پر آنچ نہ آنے دی۔یہی و جہ ہے کہ کہیں ٹک کر کام نہ کر سکے۔عمر کے آخری دس پندرہ سال فیصل آباد کی مختلف مساجد میں خطیب رہے تھے۔ ’’مولانا گکھڑوی کی پہچان کا ایک حوالہ مناظرہ ہے۔انھوں نے آریہ سماجیوں، احمدیوں اور مسیحی پادریوں کے علاوہ اہلِ حدیث کے امتیازی مسائل اور شناخت کے پس منظر میں احناف(دیوبندی و بریلوی)اور شیعہ علما سے بھی مناظرے کیے۔رئیس المناظرین کے طور پر معروف مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ(مارچ 1949ء)[1] کا ان کے بارے میں کہنا تھا کہ میرے بعد احمد دین میرے حصے کا کام کرے گا۔(ص:179) ’’برعظیم کے نو آبادیاتی دور میں مذہبی مناظروں کا بہت چرچا ہوا۔مسیحی پادریوں نے اسے اشاعتِ مسیحیت کے لیے بطور تکنیک استعمال کیا، مسلمان اہلِ علم نے انھیں ان کے پسند کردہ میدان میں آڑے ہاتھوں لینے کی خاطر انہی کا راستہ
Flag Counter