Maktaba Wahhabi

75 - 346
ان کے لیے احترام کے پہلو کو اجاگر کرتا تھا اور مولانا احمدالدین گکھڑوی کے بزرگ اور بھائی وغیرہ آہن گرہونے کی بنا پر مستری کے طور پر مشہور تھے اور تکریم کے مستحق گردانے جاتے تھے۔ دوسری بات جس کا پتا چلتا ہے، یہ ہے کہ مولانا احمد الدین کے والد جناب اللہ دتا صاحب حاجی تھے۔اس سے اس حقیقت کی نشان دہی ہوتی ہے کہ ان کی مالی حالت بہت اچھی تھی۔آج سے ایک سو بیس پچیس برس پہلے حج بیت اللہ کا عزم کرنا اور اس کے لیے سامانِ سفر یا زادِ راہ مہیا کرنا بہت مشکل تھا۔وہ بے حد سستا زمانہ تھا، لیکن پیسا انتہائی مہنگا تھا۔بہت آسودہ حال لوگ ہی حج کرسکتے تھے۔جن لوگوں کی مالی حالت کمزور تھی، ان کے لیے حج کا تصور کرنا بھی ممکن نہ تھا۔پھر حاجی کو اس عہد کے معاشرے میں نہایت احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ مسلمانوں میں بھی اور غیر مسلمانوں میں بھی حاجی کو معزز ترین آدمی گردانا جاتا تھا اور لوگ اس کی بات مانتے تھے۔اس لیے گزشتہ سو سوا سو سال پیشتر کے حالات کے تناظر میں ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ مولانا احمد الدین گکھڑوی کے گھرانے کو اس عہد میں تکریم کا مقام حاصل تھا۔معاشی اعتبار سے بھی اور معاشرتی اعتبار سے بھی وہ بہت اچھی حیثیت کے مالک تھے۔ آہن گری کا سلسلہ ان کے خاندان کا پیشہ اور ذریعہ آمدنی تھا۔اسے ان کی قوم یا ذات قرار نہیں دیا جاسکتا۔بے شمار لوگ کئی قسم کے کاروبار کرتے ہیں۔یہ کوئی بری بات نہیں ہے، بلکہ اپنے ہاتھ سے کما کر کھانا شرعی اور معاشرتی اعتبار سے نہایت قابلِ تحسین عمل ہے۔صحت مند ہونے کے باوجود بے کار رہنا غلط ہے۔کسی نہ کسی کام میں مصروفیت کو ہر دور اور ہر مقام میں قابلِ ستایش سمجھا جاتا ہے۔
Flag Counter