Maktaba Wahhabi

92 - 346
دیتے تھے۔انھوں نے مختلف مذاہب کے اہلِ علم سے بیسیوں مناظرے کیے۔بے شک بعض اوقات پرُ خلوص طیش میں آکر ان کی زبان سے کچھ ایسے کلمات نکل جاتے تھے، جنھیں عوامی نوعیت کے کلمات سے تعبیر کرنا چاہیے۔اس قسم کے کلمات سے لوگ بہت خوش ہوتے اور خوشی کے ساتھ اپنی مجلسوں میں بیان کرتے تھے۔واقعہ یہ ہے کہ حریف ان کا سامنا کرنے سے گھبراتے تھے۔ان کے دلائل کا توڑ بہت مشکل تھا اور ان کے مقابلے میں قدم جما کر کھڑے رہنا بڑے دل گردے کا کام تھا۔ کامیاب مناظر وہی ہوتا ہے، جس کا مقابلہ کرنے سے حریف گریز کی راہیں تلاش کرے اور اسے دیکھ کر اضطراب کی کیفیت میں مبتلا ہوجائے۔مولانا احمد الدین کا یہ کمال تھا کہ وہ حریف پر حملہ کرتے اور اپنے حق میں دلائل دیتے تو اس میں نہ ان کا حملہ برداشت کرنے کی طاقت ہوتی تھی اور نہ ان کے دلائل کاصحیح جواب اس کے پاس ہوتا تھا۔ میں نے زیادہ مناظرے نہیں سنے۔صرف دو مناظرے مولانا احمد الدین کے سنے ہیں، جن کا ذکر آگے آئے گا اور دو مناظرے حافظ عبدالقادر روپڑی کے سنے ہیں۔ایک مناظرہ حافظ صاحب نے ہمارے شہر کوٹ کپورہ میں قادیانی مناظر سے کیا تھا اورایک ریاست فرید کوٹ کے ایک گاؤں دلیپ سنگھ والا میں بریلوی مسلک کے عالم مولانا محمد عمر اچھروی سے کیا تھا۔یہ چاروں مناظرے تقسیم ملک سے کئی سال پہلے سننے کا موقع ملا تھا۔ میرا خیال ہے اس دور کے(ایک دوکے سوا)تمام مناظرین سے مولانا احمد الدین گکھڑوی کا طریقِ مناظرہ زیادہ کامیاب، بلکہ کہنا چاہیے کہ مدِ مقابل کے لیے بے حد خطرناک تھا۔مخالفانہ اور موافقانہ دلائل اس تیزی سے ان کے منہ سے نکلتے تھے کہ
Flag Counter