Maktaba Wahhabi

96 - 346
دیے کہ دیہات میں جمعہ نہیں پڑھنا چاہیے۔اگر کہیں پڑھا جائے تو جمعے کے بعد احتیاطاً نمازِ ظہر پڑھنی چاہیے، جسے عرفِ عام میں ’’احتیاطی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد مولانا احمدالدین گکھڑوی کی باری آئی۔انھوں نے قرآن و حدیث کے حوالوں سے ثابت کیا کہ شہروں اور قصبوں میں بھی جمعہ پڑھنا فرض ہے اور دیہات میں بھی جمعے کی ادائیگی ضروری ہے۔ ان کے بعد ایک مرتبہ پھر پانچ منٹ مولانا محمد حسین نے تقریر کی۔وہ تقریر ختم کر چکے تو مولانا احمد الدین گکھڑوی نے پانچ منٹ جوابی تقریر کی، جس میں انھوں نے اپنے موقف کی تائید میں حوالوں کی بوچھاڑ کردی۔ مولانا احمد الدین گکھڑوی کی تقریر کے بعد مولانا محمد حسین کھڑے ہوئے اور صاف الفاظ میں پنجابی میں کہا ’’تُسیں جِتے، اسیں ہارے‘‘۔یعنی آپ لوگ جیتے اور ہم ہار گئے۔یہ الفاظ کہہ کر وہ کرسی پر بیٹھ گئے۔ان کے یہ پنجابی الفاظ اب بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں اور میں انھیں کرسی پر بیٹھتے اور اٹھتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ پورے مجمعے کے لیے ان کے یہ الفاظ حیرت اور تعجب کا باعث تھے اور یہ کہہ کر ان کا بیٹھنا بے حد حیران کن تھا۔ان کے صدر ملا ملتانی صاحب بھی یہ الفاظ سن کر نہایت متعجب ہوئے اور انھوں نے بار بار ان سے کہا: ’’اٹھو مولوی احمد الدین کی باتوں کا جواب دو۔‘‘ لیکن وہ نہیں اٹھے۔درحقیقت وہ مولانا احمد الدین کے پیش کردہ حوالوں کے بوجھ تلے پوری طرح دب گئے تھے اور سامعین محسوس کررہے تھے کہ ان کا اس بوجھ سے نکلنا مشکل ہے، چنانچہ یہی ہوا۔ مجمعے میں کسی طرف سے کوئی گڑ بڑ نہیں ہوئی۔سب لوگ آرام سے بیٹھے رہے۔مولانا احمد الدین گکھڑوی بھی حیرانی کے عالم میں خاموش بیٹھے اپنے حریف
Flag Counter