Maktaba Wahhabi

127 - 132
(۴) الفاظ کی کمی بیشی کا اختلاف:مثلا ایک قراء ۃ ﴿مِنْ ﴾ کے بغیر ﴿وَأَعَدَّ لَہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا أَبَداً﴾ (التوبۃ:۱۰۰) اور دوسری میں ﴿مِنْ﴾ جارہ کے اضافہ سے ﴿وَأَعَدَّ لَہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا أَبَداً﴾ (التوبۃ:۱۰۰) ہے۔ (۵) تقدیم و تاخیر کا اختلاف: کہ ایک قراء ۃ میں ایک لفظ پہلے ہے تو دوسری میں وہی لفظ بعد میں ہے۔ مثلاً ایک قراء ۃ میں فعل معروف پہلے ہے اور فعل مجہول بعدمیں ﴿فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ ﴾ (التوبۃ: ۱۱۱) ہے تو دوسری قراء ۃ میں اس کے برعکس ﴿ فَیُقْتَلُوْنَ وَیَقْتُلُوْنَ﴾ہے۔ (۶) تبدیلی کا اختلاف:ایک قراء ۃ میں ایک لفظ ہے تو دوسری میں اس کی جگہ دوسرا لفظ ہے۔ مثال کے طور پر ایک قراء ۃ میں ﴿ وَانْظُرْ إِلی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُہَا﴾ ہے تو دوسری میں ﴿ وَانْظُرْ إِلی الْعِظَامِ کَیْفَ نَنْشُرُہَا﴾ ہے۔ (۷):لہجات میں اختلاف:جیسے فتح اور امالہ ، تفخیم ، ترقیق ، اظہار اور ادغام۔ مثلا اللہ تعالیٰ کا فرمان: ﴿وَہَلْ أَتَاکَ حَدِیْثُ مُوسَی﴾ اس میں لفظ ﴿أَتَاکَ﴾ اور لفظ ﴿مُوسٰی﴾ کو فتح اور امالہ کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے۔ امام ابن قتیبہ نے بھی قراء ات میں اختلاف کی سات وجوہ اور نوعیتوں کا تذکرہ کیا ہے۔شاید یہ پہلے محقق ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اختلاف ِقراء ات کی سات نوعیتوں کا ذکر کیا۔ اور اس کے بعد بے شمار متقدمیں اور متأخرین علماء نے ان کی پیروی میں یہ موقف اختیار کیا۔ اگرچہ وجوہ ِقراء ات کی تفصیل میں ان کے درمیان جزوی اختلاف موجود ہے ، لیکن یہ تمام حضرات اس بات پر متفق ہیں کہ سبعۃ احرف سے مراد وجوہ ِقراء ات کی سات اقسام ہیں ، جن پر قرآن کریم نازل ہوا تھا۔چنانچہ ابن قتیبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وقد تدبرت وجوہ الخلاف فی القراء ات فوجدتہا سبعۃ
Flag Counter