Maktaba Wahhabi

69 - 132
جرت علیہ عادتہم:فالہذلی یقرأ:’’عتی حین ، یرید: ﴿حَتّٰی حِیْنٍ﴾ (یوسف:۳۵) لأنہ ہکذا یلفظ بہا ویستعملہا ، والأسدی یقرأ: ’’تِعلمون ، وتِعلم‘‘۔ ۔ والتمیمی یہمز۔ ‘‘ ’’اللہ تعالیٰ نے آسانی کے پیش نظر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ ہر قوم کو اس کی لغت و لہجہ اور عادت کے مطابق قرآن پڑھائیں۔ پس قبیلہ ہذیل کے لوگ ﴿حَتّٰی حِیْنٍ﴾ (یوسف:۳۵) کو ’’عتی حین‘‘پڑھتے تھے ، کیونکہ ان کے ہاں یہ لفظ ایسے ہی استعمال ہوتا تھا۔اور قبیلہ اسد کے لوگ’’تَعلمون ، اورتَعلم‘‘ کو ’’تِعلمون ، وتِعلم‘‘پڑھتے تھے۔بنو تمیم ہمزہ کے ساتھ اور قریشی بغیر ہمزہ کے پڑھتے تھے۔اور بعض دوسرے قبائل کے لوگ ﴿وَإِذَا قِیْلَ﴾ (البقرۃ: ۱۱)، ﴿وَ غِیْضَ الْمَآئُ﴾ (ہود:۴۴) میں ہمزہ کے کسرہ کا ضمہ سے اشمام کرتے تھے۔ اور ہر انسان کے بس میں نہیں تھا کہ وہ اپنی زبان اور لہجے کو چھوڑ کر دوسرے قبیلہ کے لہجے کو اختیار کر لیتا۔اگر ان میں سے ہر فریق کو یہ حکم دیا جاتا کہ وہ اپنی لغت ، جس پر وہ پل کو جوان ہوا اور اب بڑھاپے میں قدم رکھ رہا ہے ، سے دستبردار ہو جائے تو یہ اس کے لئے نہایت گراں ہوتا ، اس کے لئے اسے بڑی دشواری اٹھانا پڑتی اور سخت ریاضت و جانفشانی اور طویل مشق کے بعد ہی یہ ممکن ہوتا۔تو اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص شفقت و رحمت سے لغات میں وسعت اور حرکات و سکنات میں تصرف کی اجازت عطا فر مادی۔‘‘ [1] امام ابو عمرو الدانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’اللہ تبارک وتعالیٰ کا قرآن کریم کو سات حروف پر نازل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ اپنے بندوں پر رحم کر تے ہوئے ان کے لیے نرمی ، وسعت اور آسانی مہیا فرمادے۔ رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لئے اللہ تعالیٰ سے اس کی
Flag Counter