Maktaba Wahhabi

79 - 132
منسوخ کر دی گئیں تھیں۔ ‘‘ [1] امام ابن الجزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ عرضہ اخیرہ کے موقع پر قرآن کریم کا کچھ حصہ منسوخ اور تبدیل کر دیا گیا تھا۔ اس حقیقت کی تصریح متعددصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صحیح ثابت ہے۔‘‘ [2] لیکن اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے کہ آیا سات حروف کی اجازت بعد میں ختم کر کے قرآن کی قراء ۃ ایک حرف پر بحال کر دی گئی تھی؟ یا سبعہ احرف کی بعض جزئیات کو ختم کیا گیا تھا۔ چنانچہ ابن عاشور رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس حدیث میں اشکال ہے ، یہی وجہ ہے کہ اس کے مفہوم میں علماء کے متعدد اقوال ہیں اور ان تمام اقوال کی بنیاد یہ دو تصورات ہیں۔ایک یہ کہ اس حدیث کو منسوخ مان لیا جائے اور دوسرا یہ کہ اسے محکم تصور کر لیا جائے۔ ‘‘[3] اس بارے میں علماء کا اختلاف دو آراء پر مبنی ہے۔ پہلی رائے پہلی رائے ان علماء کی ہے جو اس حدیث کو منسوخ سمجھتے ہیں ، ان کا موقف یہ ہے کہ آغاز اسلام میں اہل عرب کو اس بات کی اجازت دی گئی تھی کہ وہ قرآن کریم کو اپنی اپنی علاقائی لغت کے مطابق پڑھ لیں۔ پھر یہ اجازت ختم کر دی گئی اور قرآن کی قراء ۃ اپنے اصلی حرف پر واپس آگئی۔اور یہ وہ حر ف تھا ، جو لغت ِ قریش کے مطابق تھااور اسی پر قرآن نازل ہوا تھا۔ اس اجازت کو ختم کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اب لوگ بکثرت قرآن کو حفظ کر رہے تھے اور اس کی کتابت کے ذرائع بھی فراہم ہو گئے تھے۔یہ علماء کی ایک جماعت کا موقف ہے ، جن
Flag Counter