Maktaba Wahhabi

111 - 148
لوگ تمہارے دین جیسا کوئی دین حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں جو صحت اور راست روی میں تمہارے دین کے مساوی ہو تو یہ ہدایت پر ہیں۔لیکن روئے ارض پر اس دین کے سوا کوئی ایسا صحیح دین موجود نہیں ہے جو تضاذ اور تناقض سے پاک ہو،لہٰذا دین اسلام کو قبول کئے بغیر ہدایت ممکن نہیں ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کسی شخص کے سامنے اپنی رائے پیش کریں جسے آپ پورے اعتماد اور یقین سے صحیح سمجھتے ہیں اور اس سے کہیں کہ یہی درست رائے ہے اور اگر آپ کے پاس اس سے زیادہ صائب رائے موجود ہے تو اس پر عمل کر لیجئے اور تجھے یہ بھی معلوم ہے کہ میں تیری رائے کو درست نہیں سمجھتا ہوں،لیکن اس کے باوجود تیری خواہش یہ ہے کہ تو اپنے دوست کی اس بات پر سرزنش کرے کہ وہ اس کا ہم خیال نہیں ہے۔ باقی رہی وہ قراء ۃ جو گولڈ زیہر نے اپنے ذاتی تخیل کو جواز فراہم کر نے کے لیے پیش کی ہے۔ تو قراء کے نزدیک بالاتفاق اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے،کیونکہ یہ قراء ۃ تمام مصاحف عثمانیہ کے رسم کے خلاف ہے۔اورامت مسلمہ کے تمام قراء اور علماء اس بات متفق ہیں کہ کوئی بھی قراء ۃ جو رسمِ مصحف کے خلاف ہو گی،قبول نہیں کی جائے گی۔اس لحاظ سے یہ قراء ۃ قطعاً ناقابل اعتبار ہے۔ (۹)۔ نویں مثال جو گولڈ زیہر نے اس حوالہ سے پیش کی ہے،وہ سورۃ آل عمران کی یہ آیت ہے:﴿وَمَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَنْ یَغُلَّ﴾ (161) گولڈ زیہر نے اپنی کتاب کے صفحہ 40 پر لکھا ہے کہ’’ اس آیت میں دو قراءاتیں ہیں:پہلی قراء ۃ:’’یَغُلَّ‘‘ فعل معروف کی بناء پریاء کی زبر اور غین کی پیش کے ساتھ ہے۔دوسری قراء ۃ:’’یُغَلَّ‘‘ فعل مجہول کی بناء پر یاء کی پیش اور غین کی زبر کے ساتھ ہے۔‘‘ واضح رہے کہ مذکورہ دونوں قراءاتیں متواتر ہیں۔ صحابہ کرام،تابعین اور مشاہیر ثقہ قراء کی ایک بڑی تعداد نے ان دونوں قراءات کو پڑھا ہے۔ پہلی قراء ۃ کا معنییہ ہے کہ کسی نبی کے بلند منصب اور عظیم مقام ومرتبہ کے لیے مناسب ہے نہ اس کا یہ فریضہ اور نہ ہی اس کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ مال غنیمت وغیرہ میں خیانت کرے۔ یہ عام حکم ہے جو تمام انبیاء کے بارے میں مال غنیمت وغیرہ میں ارتکابِ خیانت
Flag Counter