Maktaba Wahhabi

116 - 148
ان کے ساتھ ایمان لانے کا جو وعدہ کیا تھا،اس میں انہوں نے جھوٹ بولا تھا۔مذکورہ دونوں احتمالات میں ’ظن ‘ کا لفظ یقین کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔‘‘ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے لکھا ہے: وہذہ القراء ۃ ’’کَذبُوا‘‘ لا أستجیز القراء ۃ بہا،لإجماع الحجۃ من قراء الأمصار علی خلافہا. ولو جازت القراء ۃ بذلک،لاحتمل وجہًا من التأویل،وہو:حتی إذا استیأس الرسل من عذاب اللّٰه قومَہا المکَذِّبۃ بہا،وظنَّت الرسل أن قومہا قد کَذَبوا وافتروا علی اللّٰه بکفرہم بہا،ویکون ’’الظن‘‘ موجِّہًا حینئذ إلی معنی العلم،علی ما تأوَّلہ الحسن وقتادۃ۔ ’’میں اس قراء ۃ کو درست نہیں سمجھتا،کیونکہ تمام علاقوں کے وہ قراء جو فنِِّ قراء ۃ میں مستند مانے جاتے ہیں،ان کا اس قراء ۃ کے خلاف اجماع ہے۔ بالفرض اگر اس قراء ۃ کو جائز بھی تصور کر لیا ہے تو اس کی یہ تاویل کی جا سکتی ہے کہ جب پیغمبر اپنی قوم پراللہ کی طرف سے عذاب کے نزول سے مایوس ہو گئے اور رسولوں کو یقین ہو گیا تھا کہ ان کی قوم نے اپنے کفر کے سبب اللہ کی تکذیب کی ہے اور اس پر جھوٹ باندھا ہے۔اس صورت میں لفظ ’ظن ‘علم و یقین کے معنی میں ہو گا۔امام حسن اور قتادہ نے اس کی یہ تاویل بیان کی ہے۔‘‘ اس تفصیل کے تناظر میں یہ بات ثابت ہوتی کہ ’’کَذبُوا‘‘ کی قراء ۃ مفہوم کے اعتبار سے بالکل صحیح ہے اور مفسرین نے اس کی ایسی شاندار تعبیر بیان کی ہے کہ دونوں متواتر قراءات کے مفہوم کے ساتھ اس کا قطعاً کوئی تضاد اور تناقض نہیں ہے۔( اور گولڈ زیہر کے ذہن میں نمودار ہونے والے معنوی تصور کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔) نیز معنوی لحاظ سے درست ہونے کے باوجود یہ قراء ۃ انتہائی شاذہے۔ اور اس کی سب بڑی دلیل یہ ہے کہ مشہور قراء عشرۃ میں سے کسی نے بھی اس قراء ۃ کو نہیں پڑھا۔ حتیٰ کہ ائمہ
Flag Counter