Maktaba Wahhabi

117 - 148
عشرۃ کے بعد وہ چار قراء کہ جن کی قراء ۃ کو بالاتفاق شاذ قرار دیا گیا ہے،ان میں سے بھی کسی نے اس کونہیں پڑھا۔ اور ہم بارہا دفعہ یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ جب تک کوئی قراء ۃ بذریعہ تواتر ثابت نہ ہو یاجب تک ائمہ کے ہاں شہرت کے سبب اسے قبولِ عام حاصل نہ ہو،اسے نہ تو قراء ت شمار کیا جائے گااور نہ اسے قرآن قرار دیا جائے گا۔اور یہ قراء ت بذریعہ تواتر تو درکنار بذریعہ خبرآحاد بھی ثابت نہیں ہے،لہٰذا اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس واضح حقیقت کے باوجود گولڈ زیہر کا یہ کہنا کہ ’’بلاشبہ کاف کی زبر اور ذال کی تخفیف کے ساتھ ’’کَذبُوا‘‘ کی قراء ۃ،یہ ا صلی قراء ۃ ہے۔‘‘ محض ضد اور تعصب پر مبنی رویہ ہے،کیونکہ قراءات میں ا صلی اور فرعی کا سرے سے کوئی تصور ہی نہیں ہے۔علمائے قراءات میں سے کسی نے بھی کہیں بھی اس تقسیم کا ذکر نہیں کیا ہے۔ علمائے سلف نے قراء ت کی تقسیم کار کے اس اصول کو تسلیم کیا نہ متاخرین ائمہ نے اس تقسیم کو اختیار کیاہے۔پھر نہ معلوم گولڈزیہر اس خود ساختہ تقسیم پرکیوں مصر ہے جبکہ اس نے اس سلسلہ میں عقل و نقل سے کوئی دلیل بھی پیش نہیں کی؟امت مسلمہ جس اصول پر آج تک متفق چلی آرہی ہے،وہ یہ ہے کہ اگر کوئی قراء ت تواتر سے ثابت ہو جائے،یا بذریعہ اخبار آحاد ثابت ہو،لیکن قراء کے ہاں شہرت کے سبب قبول عام حاصل کر لے تو وہ بمنزلہ تواتر کے قطعی طور قرآن ہے،اسے تسلیم کر لیا جائے گا۔لیکن اگر وہ بذریعہ اخبار آحاد نقل ہوئی ہے،البتہ قراء کے ہاں اسے قبول عام حاصل نہیں ہوا تو اسے قطعی طور پر شاذ قرار دے کر رد کر دیا جائے گا۔اور اسے قطعاً قرآن نہیں سمجھا جائے گا۔جیسا کہ قراءات عشرۃ کے علاوہ چار قراءات بالاتفاق شاذ ہیں۔اور وہ قراء ۃ جو کسی صحیح سند سے ثابت نہ ہو،جیسے ’’کَذبُوا‘‘ کی یہ قراء ۃ ہے تو ایسی قراء ۃ کے بارے میں انتہائی شاذ اور منکر ہونے کا فیصلہ کرتے ہوئے اسے مکمل طور پر رد کر دیا جائے گااور قراءات کے ترازو میں اس کا کوئی وزن اور اعتبار نہیں ہو گا۔ گولڈ زیہر کا قراءات کو ا صلی اور فرعی میں تقسیم کرنے کا یہ طرز ِعمل کسی دلیل یا دلیل نما چیز کے سہارے سے قطعاً محروم ہے۔اور علمائے قراء ت میں سے اسے کسی کی بھی تائید حاصل نہیں ہے۔
Flag Counter