Maktaba Wahhabi

86 - 148
مستقبل میں پیش آنے والے ایک واقعہ کی انتہائی یقین اور پورے وثوق و اعتماد سے خبر دی جا رہی ہے کہ یہ واقعہ عنقریب وحی الٰہی کے مطابق یقیناً رونما ہونے والا ہے۔اور اس کے لیے باقاعدہ مدت کا تعین بھی کردیا گیا ہے کہ اس دوران رومی اہل فارس پر غالب آئیں گے۔ وقت کا تعین اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ خبر دینے والے کو اپنی خبر کی صداقت کا پورا یقین ہے۔کوئی بھی ذی شعور انسان محض اپنی آرزو اور خواہش کے پورا ہونے کے لیے زمانہ اور مدت کے تعین کی غلطی نہیں کرتا۔خصوصا ًان حالات میں جبکہ اس خبر کے پورا ہونے کا دور دور تک امکان نہ ہو۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک ایسے واقعہ کی پیش گوئی جس کے پورا ہونے کا اس وقت کوئی امکان نہیں تھا،اور پھر اس پیش گوئی کو مکمل اعتمادو یقین کے ساتھ پیش کرنا،نیز اس کے لیے باقاعدہ مدت کا تعین کیا جانا،اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے کہ یہ خبر قطعاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت بس ایک مخبر کی ہے جو اپنی خواہش سے نہیں بولتے،بلکہ اللہ کے پیغام کو انسانیت تک پہنچاتے ہیں۔ اس پیش گوئی میں دو امور کی خبر دی گئی ہے۔ایک یہ کہ رومیوں کو غلبہ نصیب ہو گا اور دوسرا یہ کہ یہ غلبہ کتنے عرصہ میں پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔کوئی بھی ذی شعور انسان محض ذاتی گمان کی بنیاد پر ایسی پیش گوئی نہیں کرسکتا تھا،کیونکہ اس وقت رومی سلطنت اپنے زوال کی آخری حدوں کو چھو رہی تھی اور اس کے ثبوت کے لیے اتنا کافی ہے کہ جنگ کی آگ اس کے گھر کے صحن تک پہنچ گئی تھی اور پوری مملکت شکست وریخت سے دوچار ہو چکی تھی،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:﴿فِی أَدْنَی الْأَرْضِ﴾ کہ ’’قریب کی سرزمین میں رومی مغلوب ہو گئے ہیں۔‘‘ ان حالات میں کوئی شخص یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ رومی سلطنت اپنا وجود بھی برقرار رکھ سکے گی،چہ جائیکہ اس کی فتح اورغلبہ کا متعین وقت بتلا دیا جائے۔یہی وجہ تھی کہ جب قرآن کی یہ آیات نازل ہوئیں تو کفارِ مکہ نے ان کا خوب مذاق اُڑایا اور اس پیش گوئی کو جھٹلا دیا،بلکہ انہوں نے شرط بدنے کی پیش کش کی۔ جس پربالآخر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اورابی بن خلف کے درمیان یہ شرط طے ہوئی کہ دس سال کے اندر فریقین میں سے جس کی بات غلط
Flag Counter