Maktaba Wahhabi

87 - 148
ثابت ہو گی وہ سو اونٹ دے گا،کیونکہ قرآن کریم نے ایک تیسری پیش گوئی بھی کر دی تھی کہ یہی وہ دن ہو گا جب اللہ کی دی ہوئی فتح سے اہل ایمان خوش ہو رہے ہوں گے۔اس میں واضح اعلان تھا کہ جس دن رومیوں کو ایرانیوں پر غلبہ نصیب ہو گا،مسلمانوں کو بھی اسی زمانے میں اہل مکہ پر فتح حاصل ہو گی۔ بظاہر جب ان دونوں فتوحات کا دور دور تک کوئی امکان نہیں تھا۔ان حالات میں کوئی یہ تصور آخر کیسے کر سکتا تھا کہ ان دونوں فتوحات کی یہ پیش گوئی ایک ہی دن میں پوری ہو گی؟ اس لیے قرآن کریم نے اس پیش گوئی کو ذکر کرنے کے فوراً بعد پورے زور کے ساتھ کہا:﴿وَعْدَ اللّٰہِ لَا یُخْلِفُ اللّٰہُ وَعْدَہٗ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾ ’’یہ وعدہ اللہ نے کیا ہے،اللہ کبھی اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا،مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔‘‘ اور تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ سات سال کے دوران رومی مکمل طور ایرانیوں پر غالب آگئے تھے۔اللہ کی قدرت کا کرشمہ دیکھئے کہ یہی وہ سال تھا جس میں مسلمانوں کو بدر کے مقام پر پہلی مرتبہ مشرکین کے مقابلے میں فیصلہ کن فتح نصیب ہوئی،جیسا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ اور امام طبرانی رحمہ اللہ نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ دونوں پیش گوئیاں مقررہ مدت کے اندر اندر بیک وقت پوری ہو گئیں۔ اس طرح اللہ نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سچ ثابت ہوئی۔ یہاں یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم نے صراحت کے ساتھ سالوں کا تعین کرنے کی بجائے لفظ ’’بضع‘‘ کیوں استعمال کیا کہ جس کا اطلاق تین سے نو تک ہوتا ہے ؟ کیا اللہ تعالیٰ کو فتح کا دن،وقت اور سال معلوم نہیں تھا؟ جواب:دنیا میں سالوں کی گنتی کے لیے مختلف طریقے رائج ہیں۔بعض کے ہاں شمسی کیلنڈر رائج ہے تو بعض کے ہاں قمری کیلنڈر۔ تو حکمت و مصلحت کا تقاضا یہ تھا کہ ایسا لفظ استعمال کیا جائے جو حساب کے ان تمام رائج طریقوں کو شامل ہو۔اور کسی قسم کا شبہ اور اختلاف باقی نہ رہے۔بعض دفعہ فتح کی پیش گوئی اور اس کے لیے فیصلہ کن واقعات کے
Flag Counter