Maktaba Wahhabi

90 - 148
علاقوں پر تسلط قائم کر لیا ہے اوربیت المقدس کو ایرانیوں کے تسلط سے آزاد کروا کر اس پر اپنی حکمرانی قائم کر لی ہے،لیکن یہ حکمرانی اور فتح زیادہ دیر نہیں بلکہ چند سال ہی قائم رہ سکے گی۔پھرمسلمان رومیوں سے جنگ کریں گے اور انہیں شکست دے کر بالآخر ان کے زیر قبضہ بیت المقدس اور دیگر شامی علاقوں پر اپنی حکومت قائم کریں گے۔تو اس دوسری قراء ۃ کا یہ معنی قراء ۃ متواتر ہ کے مفہوم سے متناقض نہیں ہے۔ تضاذ اور تناقض اس وقت ثابت ہوتا ہے جب ایک ہی معاملے اور ایک ہی دور میں دو متضاد چیزیں سامنے آئیں۔مثلا ًکوئی کہے کہ اصغر نے فلاں دن سلمان کو شکست دی تھی۔اور ساتھ ہی کہے کہ سلما ن نے اصغر کو اسی وقت شکست دی تھی جس وقت اصغر نے اسے شکست دی تھی تو یہ واضح تضاد ہے۔لیکن اگر دو متضاد چیزیں دو مختلف معاملات میں سامنے آتی ہیں تو پھر کوئی تضادنہیں ہے۔مثلا کوئی کہے کہ فلاں شخص نے فلاں شخص کو تو شکست دی،لیکن اس کے علاوہ ایک دوسرے شخص سے شکست کھائی۔اسی طرح اگرایک ہی معاملے میں دو متضاد چیزیں سامنے آتی ہیں،لیکن مختلف ادوار میں،تو اس میں بھی کوئی تضاد نہیں ہے۔مثلاًکوئی کہے کہ فلاں شخص نے فلا ں کو فلاں وقت میں شکست دی اور اسی سے کسی دوسرے وقت میں شکست کھائی۔تو اسی طرح ان دو قراءات میں دو مختلف واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے،جس میں تضاد کا کوئی شائبہ نہیں ہے۔ پوری بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ ایرانیوں نے قریب کی سر زمین میں رومیوں کو شکست دی ہے،لیکن چند سال بعد رومیوں کو ایرانیوں پر فتح نصیب ہو گی۔یہ مطلب ہے پہلی قراء ۃ کا جو کہ متواتر قراء ۃ ہے۔اور یہ کہ رومیوں نے قریب کی سر زمین میں ایرانیوں کو شکست دی ہے،لیکن چند سال کے بعد مسلمانوں کو رومیوں پر فتح نصیب ہو گی،یہ مطلب ہے دوسری قراء ۃ کا،اور دونوں قراءات کے مفہوم میں کوئی تضاد نہیں ہے۔اس کو سمجھنے کے لیے کسی گہرے غورو فکر کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ علمائے مفسرین کی تفسیر کا خلاصہ ہے جو انہوں نے ان دو قراءات کے درمیان تطبیق کے سلسلے میں پیش کی ہے۔ تعجب انگیز امر یہ ہے کہ گولڈ زیہر نے ان دو قراءات کے درمیان بڑی شدو مد سے تضاد کا دعویٰ کیا ہے،لیکن پھر خود اپنے ہی الفاظ سے
Flag Counter