Maktaba Wahhabi

92 - 148
شان،عظمتِ رسول اور بعض شخصیات کے احترام کے عین مطابق تھا۔‘‘ اپنے اس دعویٰ کے حق میں گولڈ زیہر نے متعدد مثالوں کا سہارا لیا ہے،جنہیں ہم ذیل میں پیش کر رہے ہیں: (۱)۔ ﴿شَہِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآئِمًا بِالْقِسْطِ﴾ (آل عمران:18) اس کے ضمن میں گولڈ زیہر نے لکھا ہے: ’’بعض قراء کو یہ تشویش ہوئی کہ یہاں اللہ تعالیٰ کی اپنی ذات کے لیے گواہی کے متصل بعد یہ تذکرہ کہ فرشتے اور اہل علم بھی اللہ کے ساتھ یہ گواہی دیتے ہیں،مناسب نہیں۔تو انہوں نے صیغۂ فعل کو جمع مکسر میں بدل دیا اور اس کا تعلق ماقبل آیت:﴿اَلصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْمُنْفِقِیْنَ وَ الْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ﴾ سے جوڑ دیا۔ یعنی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے گواہ ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور فرشتے بھی اس توحید پر اللہ کے گواہ ہیں۔لیکن مذکورہ وجہ جواز کے موجدین نے سورۃ النساء کی آیت:﴿لٰکِنِ اللّٰہُ یَشْہَدُ بِمَا اَنْزَلَ اِلَیْکَ اَنْزَلَہٗ بِعِلْمِہٖ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ یَشْہَدُوْنَ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا﴾ میں ایسی کوئی تبدیلی نہیں کی،کیونکہ یہاں ترمیم مشکل تھی۔ ‘‘ قارئین کرام !گولڈ زیہر کی یہ سخن سازی لائق توجہ ہے نہ اس قابل کہ اس کا رد کیا جائے،کیونکہ نزولِ قرآن کی تاریخ کے پہلے دن سے آج تک کسی قاری نے اس قراء ۃکو نہیں پڑھا اور معمولی علم وفہم کا حامل شخص بھی یہ تصور نہیں کرسکتا کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے ذات کے لیے اپنے بندوں کے درمیان عدل کے قیام کی گواہی دینا کس طرح اس کے عظیم مقامِ الوہیت کے منافی بھی ہو سکتا ہے۔اور مقام حیرت ہے کہ سورۃ النساء کا حوالہ دے کر گولڈ زیہر نے خود ہی اپنی رائے کا رد کر دیا ہے۔جب گولڈ زیہر کو معلوم تھا کہ سورۃ النساء کی آیت بھی اسی مفہوم کو پیش کر رہی ہے جو سورۃ آل عمران میں بیان ہوا ہے تو بہتر تھا کہ وہ سورۃ
Flag Counter