Maktaba Wahhabi

93 - 148
آل عمران کی آیت کو تختہ مشق نہ بناتا اور اس انتہائی درجے کی شاذ قراء ۃ کو ذکر نہ کرتا۔ (۲)۔ ﴿فَاسْتَفْتِہِمْ أَہُمْ اَشَدُّ خَلْقًا أَمْ مَّنْ خَلَقْنَآ اِنَّا خَلَقْنٰہُمْ مِّنْ طِیْنٍ لَّازِبٍ بَلْ عَجِبْتَ وَ یَسْخَرُوْنَ﴾ مشرکین مکہ کا خیال تھا کہ موت کے بعد دوبارہ زندگی محال ہے تو اللہ تعالیٰ ان کے اس نظریہ کی مذمت کرتے ہوئے اور امکان آخرت کے دلائل پیش کرتے ہوئے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمارہے ہیں کہ اگر یہ کائنات کی تخلیق میں غور فکر کریں گے تو انہیں آخرت کی حقیقت سمجھ آجائے گی کہ جس خدا کے لیے یہ زمین و آسمان،ستارے و سیارے،فرشے اور عظیم کائنات پیدا کرنا مشکل نہ تھا،اس کے لیے تمہیں دوبارہ پیدا کرنا کیسے مشکل ہو گیا۔ گولڈ زیہر نے اس آیت کے ضمن میں لکھا ہے کہ ’’فرمان الٰہی:﴿بَلْ عَجِبْتَ وَ یَسْخَرُوْنَ﴾ کے بارے میں قراء کا اختلاف ہے۔ عام قرائے کوفہ نے اسے تاء کی پیش کے ساتھ﴿بَلْ عَجِبْتُ﴾ پڑھا ہے۔ قرائے مدینہ اور بصرہ نے بھی اسی طرح پڑھا ہے اور یہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراء ۃ ہے۔لیکن بعض قرائے کوفہ نے اسے تاء کی زبر کے ساتھ﴿بَلْ عَجِبْتَ﴾ پڑھا ہے۔یہاں مفسرین نے اللہ تعالیٰ کی طرف تعجب و حیرانی کی نسبت کی مختلف تفاسیر بیان کی ہیں۔ لیکن دیگرنے تعجب کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ علماء نے ذات ِالٰہی کی طرف تعجب و حیرانی کی نسبت کو مناسب خیال نہیں کیا،لہٰذا انہوں نے یہاں تاء کو زبر کے ساتھ پڑھ دیا۔جس کا معنی یہ ہے کہ اے محمد آپ حیران ہیں اور یہ قرآن کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ یہاں ہم یہ فرض کر سکتے ہیں کہ متکلم کا صیغہ ’’عَجِبْتُ‘‘ ا صلی قراء ۃ ہے۔‘‘[1]
Flag Counter