Maktaba Wahhabi

107 - 243
کیا انھیں اس بات کا ڈر تھا کہ عورتیں باتیں بنائیں گی کہ ابوطالب آخری وقت موت سے گھبرا گیا تھا جیسا کہ انھوں نے موت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس خدشے کا اظہار بھی کیا تھا۔ یا پھر انھوں نے قریش کے طعنوں سے اپنے بچاؤ کی تدبیر کی تھی اور قوم کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی تھی۔ اگر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کیونکہ وہ تو اپنے بھتیجے کی حفاظت کے لیے قریش اور اس کے سرداروں کے مد مقابل ڈٹ کر کھڑے ہو گئے تھے۔ اور انھوں نے قریش کی طرف سے بڑی سے بڑی پیشکش بھی مسترد کر دی تھی اور یہ مطالبہ بھی کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کو اکیلا چھوڑ دو اور اس کی مدد نہ کرو۔ جب ابو طالب نے قریش کے مطالبات تسلیم نہ کیے اور وہ ان سے مایوس ہو گئے تو انھوں نے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ابو طالب کو بھی جانی اور مالی تکالیف پہنچائی تھیں۔ انھیں اور بنو ہاشم کے دیگر افراد کو سماجی و معاشی بائیکاٹ کے سخت محاصرے میں ڈال دیا تھا۔ اس محاصرے کی و جہ سے ابو طالب اور مسلمانوں کو انتہائی سخت تکالیف اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ قریش نے تین سال تک بنو ہاشم سے انتہائی ظالمانہ بائیکاٹ کیے رکھا، انھوں نے بنو ہاشم سے اپنی رشتہ داریاں بھی توڑ لی تھیں اور ان کے ساتھ ہر قسم کی تجارت بھی بند کر دی تھی۔ ان سب پریشانیوں کے باوجود ابو طالب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھرپور ساتھ دیا۔ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دفاع میں ایک لمحہ بھی غفلت نہیں برتی تھی۔ ابوطالب کو جب حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے متعلق پتہ چلا کہ اس نے مکہ سے اپنا دین بچا کر آنے والے مہاجرین کی خوب آؤ بھگت اور تکریم کی ہے تو انھوں نے نجاشی کی
Flag Counter