Maktaba Wahhabi

129 - 243
تھا؟ ابو سفیان نے جواب دیا: ’’نہیں۔ ہم اسے ایک مدت سے جانتے ہیں، اس نے کبھی کسی کو دھوکہ نہیں دیا، نہ کبھی ہم نے اس کی زبان سے کوئی جھوٹی بات سنی ہے۔‘‘ تو ہرقل نے کہا مجھے یقین ہو گیا ہے کہ جو لوگوں کے بارے میں جھوٹی بات نہیں کہتا وہ اللہ کے معاملہ میں بھی جھوٹ نہیں بول سکتا۔[1] جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم صادق و امین تھے اور لوگوں نے کبھی ان کی زبان سے کبھی کوئی جھوٹ نہیں سنا تھا تو پھر ابولہب ان سے کیوں لڑتا تھا؟ اور ان کے خلاف قریش کو کیوں اُکساتا تھا؟ کیا قریش اس بات کا یقین رکھتے تھے جو انھوں نے خود پھیلا رکھی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاہن ہیں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جنات کے اثرات ہیں؟ کتب حدیث میں یہ واقعہ موجود ہے جو قریش کے گمان کی نفی کرتا ہے، کہ قبیلہ ازدشنوء ہ سے ضماد نامی ایک شخص مکہ مکرمہ آیا، وہ آسیب زدہ کو جھاڑ پھونک کیا کرتا تھا، اس نے کہا کہ اگر میں اس آدمی(محمدصلی اللہ علیہ وسلم )کو دیکھ لوں تو اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے میرے ہاتھوں شفا عطا فرما دے گا، چنانچہ چند لوگوں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا پتا بتایا اور جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا تو اس نے کہا: اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم ! میں اس سحر کا دم کرتا ہوں اور یقیناً اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے میرے ہاتھ سے شفا دیتا ہے تو آپ کا کیا خیال ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سامنے خطبہ مسنونہ ارشاد فرمایا: ’’تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اسی کی حمد بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد طلب کرتے ہیں، جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک
Flag Counter