سرکشوں اور ان کی حکومتوں کا یہی طریقہ ہے جسے وہ اسلامی شہروں میں اللہ کی طرف دعوت دینے والوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح کی بعض حکومتوں نے مومنوں کی جماعت کو بھوکا رکھنے اور ان کا محاصرہ کرنے کے لیے ایسے ہی اسباب کا سہارا لیا ہے۔ اور مسلمانوں کے لیے اسباب معیشت اور راشن حاصل کرنے کی راہوں کو بند کر دیا ہے۔ سرکشوں نے یہ کام اس لیے کیے تا کہ اللہ کے لشکر کی طاقت کو توڑ دیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید ان طریقوں سے انھیں کچھ فائدہ حاصل ہو جائے اور وہ اپنے ہدف (مقصد) کو حاصل کر لیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والے اور اس کی طرف دعوت دینے والے اپنے مشن پر ڈٹے رہتے ہیں۔ یہ طریقے اور آزمائشیں ان کے پایۂ استقلال میں لرزش پیدا نہیں کر سکتیں اور ایسا بھی نہیں ہے کہ ان کے ارادے ان مشکلات اور آزمائشوں سے متزلزل ہوجائیں۔ کیونکہ موت کا ایک وقت مقرر ہے اور انسان کا رزق بھی تقدیر میں لکھا جا چکا ہے۔ اتنی دیر تک کسی انسان کو موت نہیں آسکتی جتنی دیر تک وہ اپنے حصے کا وہ رزق حاصل نہیں کر لیتا جو اس کی تقدیر میں لکھا ہے۔ اس بات کی تصدیق اللہ کا قرآن فرماتا ہے: ﴿ وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللّٰهِ كِتَابًا مُؤَجَّلًا ﴾ ’’اور کوئی ذی روح اللہ کے حکم کے بغیر نہیں مر سکتا، موت کا وقت تو لکھا ہوا ہے۔‘‘ [1] اور فرمایا: ﴿ وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ ﴾ ’’تمھاری روزی اور جو تم سے وعدہ کیا جاتا ہے سب آسمان میں ہے۔‘‘ [2] |