Maktaba Wahhabi

53 - 108
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ جب تابعین کا کسی بات پر اجماع ہوجائے تو اس کے حجت ہونے میں کوئی شک نہیں کیا جاسکتا ۔اور اگر ان میں اختلاف ہو تو ان میں سے کسی ایک کی بات دوسرے پر حجت نہیں ہوسکتی۔ اور نہ ہی اس کے بعد کے لوگوں پر حجت ہوسکتی ہے۔ اس بارے میں قرآن و سنت کی زبان کی طرف یا عموم ِ لغت ِ عرب کی طرف رجوع کیا جائے گا یااس بارے میں اقوال ِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف۔‘‘[1] اورایسے ہی آپ فرماتے ہیں: ’’ جو کوئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کے مذہب یا ان کی تفسیر سے اس طرف ہٹ جائے گا جو اس (راہ و مذہب ) کی مخالف ہے ‘ وہ اس میں خطا کار ہوگا ، بلکہ وہ بدعتی ہوگا۔ بھلے وہ مجتہد ہو اوراس کی خطائیں بخشی ہوئی ہوں‘‘۔ پھر فرمایا:’’ جس نے ان کی بات کی مخالفت کی ‘ اور ان کی تفسیر کے خلاف تفسیر کی یقیناً وہ دلیل اور مدلول دونوں میں خطا کا مرتکب ہوا ۔ ‘‘[2] خامساً: کلمات کا شرعی یا لغوی معنی کے تقاضا حسب ِ سیاق: اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: { إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاکَ اللّٰهُ وَلاَ تَکُن لِّلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْماً} (النساء:۱۰۵) ’’ (اے پیغمبر!)بے شک ہم نے آپ پر سچی کتاب نازل کی ہے تاکہ اللہ کی ہدایات کے مطابق لوگوں کے مقدمات کا فیصلہ کرو ۔‘‘ اور اس کا فرمان ہے : { إِنَّا جَعَلْنَاہُ قُرْآناً عَرَبِیّاً لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ} (الزخرف:۳) ’’بے شک ہم نے اس کو قرآنِ عربی بنایا ہے تاکہ تم سمجھو۔‘‘ اور فرمایا :
Flag Counter