Maktaba Wahhabi

54 - 108
{وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِہِ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ} (ابراہیم:۴) ’’اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اسی قوم کی زبان میں تاکہ انہیں (احکامِ الٰہی) کھول کھول کر بتا دے ۔‘‘ جب لغوی اور شرعی معنی میں اختلاف ہوجائے تو وہ معنی لیا جائے گا جس کا تقاضا شرعی ہو۔ کیونکہ قرآن شرع بیان کرنے کے لیے نازل ہوا ہے نہ کہ لغت کے بیان کے لیے ، إلا یہ کہ کوئی ایسی راجح دلیل موجود ہو جس کی وجہ سے لغوی معنی لیا جانا قوی ہو تو اسے لیا جائے گا۔ شرعی اور لغوی معانی میں اختلاف کی صورت شرعی کو مقدم رکھنے کی مثال: منافقین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : {وَلاَ تُصَلِّ عَلَی أَحَدٍ مِّنْہُم مَّاتَ أَبَداً } (التوبہ:۸۴) ’’ اور ان میں سے کوئی مر جائے تو کبھی اس پر نماز [جنازہ ]نہ پڑھنا ۔‘‘ سو ’’صلاۃ ‘‘ کا معنی عربی لغت میں دعا ہے ‘ لیکن شرع میں (یہاں پر ) مراد میت پر مخصوص قسم کی دعا کے لیے کھڑا ہوناہے۔ پس شرعی معنی کو مقدم کیا جائے گا۔کیونکہ متکلم کے لیے مقصود مخاطب کے لیے معہود(ذہن میں) ہے ۔ اور ان (منافقین ) کے لیے دعا سے مطلق طور پر منع کرنا دوسری دلیل سے ثابت ہے ۔ اور اس کی مثال جس میں دو معنوں میں اختلاف واقع ہواور لغوی معنی کا کو مقدم رکھا جائے ‘ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : {خُذْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِم بِہَا وَصَلِّ عَلَیْہِمْ } (التوبہ:۱۰۳) ’’اُن کے مال میں سے زکوٰۃ لیں؛ اس سے تم اُن کوظاہراً پاک اور ان کا تزکیہ کرتے ہو اور اُن کے حق میں دعائے خیر کرو۔‘‘ یہاں پر’’ الصلاۃ ‘‘ سے مراد دعاء ہے ۔ اس کی دلیل وہ حدیث ہے جسے امام مسلم رحمہ اللہ نے عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے :’
Flag Counter