Maktaba Wahhabi

58 - 108
تو اس کو ان سب معانی پر محمول کیا جائے گا۔ تو ان میں سے ہر ایک قول کے لیے معنی کی ایک قسم ہوگی۔ سوم: لفظ اور معنی میں اختلاف : اور آیت ان دونوں معانی میں تضاد کی وجہ سے دونوں کا احتمال نہ رکھتی ہو؛ تو اس صورت میں سیاق آیت سے استدلال کرتے ہوئے اسے راجح معنی پر محمول کیا جائے گا ۔ اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : { إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ وَالْدَّمَ وَلَحْمَ الْخَنزِیْرِ وَمَا أُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِہِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَإِنَّ اللّٰهَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ}(النحل:۱۱۵) ’’ اُس نے تم پر مردار اور لہو اورسؤر کا گوشت حرام کر دیا اور جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے؛ ہاں اگر کوئی ناچار ہو جائے تو بشرطیکہ گناہ کرنے والا نہ ہو اور نہ حد سے نکلنے والا تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’غیر باغ‘‘ مردار سے متعلق ہے ‘اور ’’و لاعاد‘‘ اس کے کھانے سے متعلق ہے ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ : ’’ نہ ہی امام پر خروج کرنے والا ہو‘ اور نہ ہی سفر میں گناہ کرنے والا ‘‘ ۔راجح پہلا قول ہے۔کیونکہ آیت میں دوسرے قول پر کوئی دلیل نہیں ہے ۔کیونکہ مذکورہ اشیاء میں سے جو حلال کیا گیا ہے، وہ ضرورت کو ختم کرنے کے لیے ہے ۔جب امام پر خروج اورحرام سفر کی حالت میں یہ چیزیں واقع ہونے والی ہیں ۔ اس کی دوسری مثال اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : {وَإِن طَلَّقْتُمُوہُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوہُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَہُنَّ فَرِیْضَۃً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إَلاَّ أَن یَعْفُونَ أَوْ یَعْفُوَ الَّذِیْ بِیَدِہِ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ} (البقرہ:۲۳) ’’اور اگر تم عورتوں کو اُن کے پاس جانے سے پہلے طلاق دیدو لیکن مہر مقرر کر چکے ہو توآدھا مہر دیناہو گا۔ ہاں اگر عورتیں بخش دیں یا مرد جن کے ہاتھ میں
Flag Counter