Maktaba Wahhabi

111 - 114
’’میری نظر میں ایسا کوئی شخص نہیں جس نے تکبیر پہلے اور رفع یدین بعد میں کرنے کا کہا ہو۔‘‘ حافظ ابن ِحجر رحمہٗ اللہ کا یہ قول ہی امام شوکانی نے بھی نیل الاوطار (۱/۲/۱۷۹)میں نقل کیا ہے،لیکن کوئی تبصرہ نہیں کیا،اور انہی [حافظ ابن حجر ] سے نقل کرتے ہوئے سید سابق نے فقہ السنّہ میں بھی یہ بات لکھی ہے،جبکہ فقہ السنّہ سے متعلقہ ضروری تعلیقات پر مشتمل کتاب تمام المنّہ میں شیخ البانی نے ان کی اس بات پر ان کا مؤاخذہ کیا ہے،اور لکھا ہے کہ کوئی اس کا قائل کیوں نہیں،ضرور ہے۔ احناف کے یہاں ایک قول یہ بھی ہے کہ تکبیرِ تحریمہ کے بعد رفع یدین کی جائے،اور جب صحیح حدیث میں بھی یہ ثابت ہے تو پھر کسی کے قائل ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا،اور اس پر عمل کرنے سے توقّف کرنے کا کوئی عذر یا جواز باقی نہیں رہ جاتا،خصوصاً جبکہ اس صحیح حدیث کی ایک شاہد حدیث بھی سنن دار قطنی میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی موجود ہے۔ [1] لہٰذا حق بات یہی ہے کہ تینوں ہیئات و صورتیں ہی قابل ِعمل ہیں،کبھی کسی اور کبھی کسی پر عمل کیا جائے،کیونکہ اسی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ اتّباع و اطاعت ہے۔ [2] ویسے خود حافظ ابن ِ حجر رحمہٗ اللہ نے بھی فتح الباری میں رفع یدین کے لیٔے ان تینوں اوقات کو ثابت کیا ہے،اور خصوصاً زیرِ بحث صورت کے بارے میں لکھا ہے : (وَقَدْ وَرَدَ تَقْدِیْمُ الرَّفْعِ عَلیٰ التَّکْبِیْرِ وَ عَکْسِہٖ وَأَخْرَجَھَا مُسْلِمٌ)۔ [3]
Flag Counter