Maktaba Wahhabi

115 - 352
{ اِنَّھُمْ یَکِیْدُوْنَ کَیْدًا وَأَکِیْدُ کَیْدًا } (الطارق: ۱۵،۱۶) ترجمہ:’’البتہ کافر داؤ گھات میں ہیں اور میں بھی ایک چال چل رہا ہوں‘‘ … شر ح… ’’ اِنَّھُمْ ‘‘ یعنی کفارِ قریش’’یَکِیْدُوْنَ کَیْدًا‘‘محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین حق کو غلط اور باطل ثابت کرنے کیلئے مکر کرتے ہیں۔ ’’وَأَکِیْدُ کَیْدًا‘‘میں انہیں ڈھیل دیکر ان کے مکر وفریب کی انہیں سزادیتا ہوں اور انہیں ا ن کی غفلت میں پکڑتاہوں کہ انہیں شعور تک نہیںہوتا۔ ان آیات کو یہاں ذکر کرنے کا مقصد ان آیات میں اللہ تعالیٰ کیلئے صفتِ مکر وکید بیان ہوئی ہیں، مکر وکید کی نسبت اللہ کی طرف اپنے باب میں اپنی حقیقت پرقائم ہے؛کیونکہ ’’مکر‘‘ کا معنی ہے کسی چیز کو کسی تک مخفی طورپر پہنچانا۔کید، مکراور مخادعت سب سے یہی مراد ہے۔ ’’کید ‘‘کی دوقسمیں ہیں:قبیح ،وحسن ۔قبیح یہ ہے کہ مکر وکید اس شخص تک پہنچانا جو اس کا مستحق نہیں ہے، جبکہ حسن یہ ہے کہ جو مکر وکید کے معاملے کا مستحق ہے اسے بطور سزا مکر وکید پہنچانا ۔کید کی پہلی قسم مذموم ہے جبکہ دوسری قسم ممدوح ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کید کیدِ محمود ہے اور مبنی برعدل وحکمت ہے ،اللہ تعالیٰ ظالم وفاجر کی اس طرح گرفت کرتا ہے کہ اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا،اللہ تعالیٰ کا معاملہ ان ظالموں کی طرح نہیں جو لوگوں پر ظلم وستم کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو کید ،مکر اور خداع جیسی صفات سے اس لئے متصف فرمایا ہے کہ مخلوقات میں سے جو ناحق کید ،مکر اور خداع کا ارتکاب کرے اسے اس کے جرم کے (بالمقابل) اسی طریقے سے بدلہ اور سزاسے ہمکنار فرمادے ۔اور یہ بات معلوم ہے کہ اس طریقے سے بدلہ اور سزا کا نظام اگر مخلوق قائم کرے تو انتہائی قابلِ تعریف ہے تو پھر اللہ رب العزت تو بالاولیٰ اس تعریف کا مستحق ہے ۔
Flag Counter