Maktaba Wahhabi

125 - 352
… شر ح … ’’ یُسَبِّحُ لَہٗ مَافِی السَّمٰوَاتِ وَمَافِی الْاَرْضِ‘‘یعنی آسمانوں اور زمین کی تمام مخلوقات، ہر نقص وعیب سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ وپاکی بیان کرتی ہیں۔’’ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ‘‘ یعنی بادشاہت ا ورحمد دونوں اللہ تعالیٰ کیلئے مختص ہیں ان میں کسی اور کے لیئے کچھ بھی نہیں،بندوں کو جو بادشاہتیں ملی ہوئی ہیں وہ اللہ تعالیٰ ہی کی عطا کردہ ہیں ۔ ’’وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ‘‘ یعنی ہر چیز پر قادر ہونے کی وجہ سے کوئی چیز اسے عاجز نہیں کرسکتی ۔ { تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْرًا ۔ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ وَلَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ وَخَلَقَ کُلَّ شَیْئٍ فَقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا } (الفرقان:۱،۲) ترجمہ’’بہت بابرکت ہے وہ اللہ جس نے اپنے بندہ پر فرقان اتارا تاکہ وہ تمام لوگوںکیلئے آگاہ کرنے والا بن جائے ۔ اسی اللہ کی سلطنت ہے آسمانوں اور زمین کی ،اور وہ کوئی اولاد نہیں رکھتا ،نہ اس کی سلطنت میں کوئی اس کا ساجھی ہے ،اور ہر چیز کو اس نے پیدا کرکے ایک مناسب اندازہ ٹھہرادیاہے‘‘ … شر ح … ’’ تَبَارَکَ ‘‘فعل ماضی ہے ،اور ’’البرکۃ ‘‘سے ماخوذ ہے ،البرکۃ ایسی بڑھوتی اور زیادتی کو کہتے ہیں جو ہمیشہ برقرار اور ثابت رہے ۔ یہ لفظ(تبارک) صرف اللہ تعالیٰ کیلئے استعمال ہوتا ہے ، اور صرف لفظ ماضی ہی استعمال ہوتا ہے۔ ’’الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ ‘‘ فرقان سے مراد قرآن ہے ، قرآن کو فرقان اس لیئے کہا گیا ہے کہ یہ حق وباطل کے درمیان فرق کرنے والا ہے ۔ ’’عَلٰی عَبْدِہٖ‘‘ یہاں عبد سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ،اور عبد صفتِ مدح وثناء ہے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عبد کی
Flag Counter