Maktaba Wahhabi

126 - 352
اپنی طرف اضافت فرمائی ہے ،اور یہ اضافت برائے تشریف وتکریم ہے، جو انزالِ قرآن کی مناسبت کے مقام میںذکر ہوئی ہے ۔’’لِیَکُوْنَ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْرًا ‘‘’’العالمین ‘‘سے مراد تمام انس وجن ہیں ۔اور تمام انس وجن کی طرف مبعوث ہونا صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے ۔ ’’نذیر‘‘ بمعنی’ ’مُنْذِرْ‘‘ یہ ’’الانذار‘‘ سے ماخوذ ہے،جس کا معنی ہے ،اسباب ِ خوف سے آگاہ کرنا۔’’ لیکون‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر انزالِ قرآن کی علت بیان ہورہی ہے ،تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسالتِ عامہ کے ساتھ مخصوص کردیا جائے۔ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کا نزول اس لئے ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قرآن کے ذریعے تمام انس وجن کو ڈرائیںیہ رسالتِ عامہ کا منصب ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے) اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کیلئے چار صفات بیان فرمائی ہیں۔ ( ۱) ’’ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ‘ ‘ یعنی آسمانوں اور زمین کی بادشاہت صرف اللہ تعالیٰ کیلئے ہے ،کسی اور کیلئے نہیں ،لہذا وہ اکیلا ہی متصرف ہے ۔ (۲) ’’ وَلَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا‘‘ اس کی اولاد نہیں ،جیسا کہ یہود ونصاریٰ کا زعم ِ باطل ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تو کمالِ غنی کی خوبی سے متصف ہے۔(لہذا وہ اولادسے مستغنی ہے) جبکہ پوری مخلوق محتاجِ محض ہے۔ (۳) ’’وَّلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ‘‘ یعنی اس کی بادشاہت میں اس کا کوئی شریک نہیں ۔ اس میں وثنیہ (بت پرست) ثنویہ (متعدد آلھۃ کے قائل ) اور دیگر مشرکین کا رد ہے ۔ (۴) ’’ وَخَلَقَ کُلَّ شَیْئٍ ‘‘یعنی تمام مخلوقات کو پیدا کیا ۔کل شیء میں افعالِ عباد بھی داخل ہیں ،افعالِ عباد ،اللہ تعالیٰ کی مخلوق بھی ہیں اور بندے کافعل بھی ۔’’فَقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا‘‘ یعنی ہر چیز کی اجل ،رزق اور سعادت وشقاوت کے اعتبار سے تقدیر مقرر فرمادی ، اور ہر چیزکواس کے منا سبِ حال بنادیا ۔
Flag Counter