Maktaba Wahhabi

186 - 352
’’من فی السماء‘‘ سے اللہ تعالیٰ کی ذات مراد ہے۔’’امین‘‘ اللہ تعالیٰ نے جسے اپنی وحی، رسالت اور اپنی شرعیت کی تبلیغ پر امین بنایا ہے، اور یہ ذمہ داری گویا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت اور صداقت کی گواہی ہے ،’’وکفی باللّٰه شھیدا‘‘ اور اللہ کی گواہی کافی ہے۔ شاہد حدیث : اس حدیث میں لفظ’’من فی السماء‘‘ سے اللہ تعالیٰ کیلئے علو کا اثبات ہورہا ہے۔ [والعرش فوق ذلک ،واللّٰه فوق العرش وھو یعلم ما أنتم علیہ] ترجمہ:[ اور اس کے اوپرعرش ہے (یعنی ساتوں آسمانوں کے اوپر) اور اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر ہے اور وہ تمہارے حالات کو بخوبی جانتا ہے] (یہ روایت حسن ہے اسے ابوداؤد وغیرہ نے روایت کیا ہے) …شرح… یہ حدیث کا آخری حصہ ہے، ابتداء ِحدیث میں آسمان اورزمین کے درمیان، اور ساتوں آسمانوں کے ایک دوسرے کے درمیان کتنا فاصلہ ہے ،کا ذکر کیا گیا ہے ، اس طرح ہر آسمان کی کثافت ،سمندر جو کہ ساتوں آسمانوں کے اوپر ہے،کی کثافت کاذکر کیا گیا ہے، سمندر کے اوپر جو آٹھ عظیم اوعال ہیں کا ذکر کیا ہے ۔ اس کے بعد حدیث کے الفاظ ہیں ’’والعرش فوق ذلک‘‘ یعنی مذکورہ تمام مخلوقات کے اوپر عرش ہے، اور اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر مستوی ہے ایسا استواء جو اس کے لائقِ شان ہے۔ ’’واللّٰه یعلم ماانتم علیہ ‘‘ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا علم ہرشیٔ کو محیط ہے اس پر کوئی چیز مخفی نہیں، اس لیئے ساری مخلوقات کے اوپر عرش پر مستوی ہونے کے باوجود انسانوں کے احوال سے پوری طرح آگاہ اور باخبر ہے۔ شاہدحدیث: اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کیلئے علو کا اثبات ہے۔(کیونکہ اللہ تعالیٰ عرش پر
Flag Counter