Maktaba Wahhabi

222 - 352
کلام اللہ ہونے سے خارج نہیں، کیونکہ کلام کی حقیقی اضافت اس کی طرف ہوتی ہے جس نے ابتداءً کلام کیا ہو نہ کہ اس کی طرف جس نے کلام آگے منتقل کیا ہو، قرآن حروف ومعانی سمیت کلام اللہ ہے،کلام اللہ نہ تو ایسے حروف ہیں جن کے کوئی معانی نہ ہوں اور نہ ایسے معانی ہیں جن کے حروف نہ ہوں،(بلکہ حرو ف اور معانی دونوں ملکر کلام اللہ ہیں۔) عبارت کی تشریح … شرح … اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کی کتابوں پر ایمان اصولِ ایمان میں سے ہے، کماتقدم ۔ قرآن کے کلام اللہ ہونے پر ایمان بھی ، ایمان کے مذکورہ دو اصل میں داخل ہے،کیونکہ ایمان باللہ ایمان بالصفات کو متضمن ہے ،اور اللہ کا کلام اس کی صفات میں سے ہے ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ صفت ہے کہ وہ جب چاہتا ہے ،جو چاہتا ہے کلام فرماتا ہے ،اور وہ ہمیشہ سے متکلم ہے اورہمیشہ متکلم رہے گا ،اس کا کلام کبھی ختم نہیںہوگا۔ کلام باعتبارِ نوع اللہ تعالیٰ کے حق میں ازلی وابدی ہے البتہ مفرداتِ کلام ،اللہ تعالیٰ کی منشاء وحکمت کے مطابق آہستہ آہستہ صادر ہوتے رہیں گے۔ قرآن، اللہ تعالیٰ کا کلام میں سے ہے اوریہ اس کی سب سے عظیم کتاب ہے ،ایمان بالکتب میں قرآن بھی داخل ہے ،بلکہ اسے تو اولیت حاصل ہے ، یہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ہے ،اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کے ساتھ کلام فرمایا ہے اور اسے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایاہے ، یہ قرآن منزل (نازل کیا ہوا) ہے مخلوق نہیں ہے ،کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ہے ،اللہ تعالیٰ نے قرآن کی اضافت اپنی طرف فرمائی ہے اور یہ اضافت ’’اضافۃ الصفۃ الی موصوفھا‘‘ کی قبیل سے ہے، اور یہ بات مسلم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات مخلوق نہیں ہیں، لہذا اس کا کلام بھی مخلوق نہیں ہے۔
Flag Counter