Maktaba Wahhabi

223 - 352
اس مسئلہ میں کچھ گروپوں نے اہل السنۃ والجماعۃ کی مخالفت کی ہے ،ان کے نام مع ان کے نظریات ذیل میں دیئے جارہے ہیں۔ (۱) الجہمیۃ: ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کلام نہیں فرماتا ،بلکہ اللہ تعالیٰ نے کلام کو اپنے غیر میں پیدا فرمایاہے ،اور اسے کلام اللہ سے تعبیر فرمایا ہے ،ان کا کہنا ہے کہ کلام کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف مجازاً ہے حقیقتاً نہیں کیوںکہ خالقِ کلام وہی ہے ۔یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے متکلم ہونے کا معنی خالق الکلام فی غیرہ (کلام کودوسروں میں پیدا کرنے والا) سے کرتے ہیں ۔ جہمیہ کا یہ نظریہ بالکل باطل ہے عقلی اورنقلی دلائل کے بالکل خلاف ہے ، سلف ِ صالحین اور أئمۃ المسلمین کے قول کے خلاف ہے ،کیونکہ عقلا متکلم اس کو کہا جاتا ہے جس نے حقیقتاً کلام کی ہو۔ یوں کہنا کیسے صحیح ہوسکتا ہے کہ’’ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے‘‘اور قائل کوئی دوسرا ہو،نیز یہ بات کیسے درست ہوسکتی ہے کہ کہا تو کلام اللہ جائے لیکن وہ کلام کسی دوسرے کا ہو۔ مصنف رحمہ اللہ اپنے قول:’’ منہ بد أ والیہ یعود وأن اللّٰه تکلم بہ حقیقۃ۔ وأن ھذا ا لقرآن الذی أنزلہ علی محمد صلی اللّٰه علیہ وسلم ھو کلام اللّٰه حقیقۃ لاکلام غیرہ‘‘ سے جہمیہ کا رد فرمارہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ قرآن کا ظہور اللہ کی طرف سے نہیں ہوا ،اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حقیقتاً کلام نہیں فرمایا ،کلام کی نسبت اللہ کی طرف مجازی ہے،قرآن درحقیقت اللہ کے غیر کا کلام ہے،اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی نسبت اس لئے ہے کہ اس کا خالق اللہ ہے ۔ مصنف رحمہ اللہ کے قول ’’منہ بدأ والیہ یعود‘‘ میں من ابتداء الغایۃ کیلئے ہے مطلب یہ ہے کہ قرآن کا ظہور اورصدور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہی اسے کلام فرمایا ہے، اور اس قرآن نے اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ جانا ہے،کیونکہ آخری زمانہ میں قرآن کو اٹھالیا جائے گا، لوگوں کے سینوں اور صحائف میں کچھ بھی باقی نہیں رہے گا،قربِ قیامت قرآن کا اٹھایا جانا علاماتِ قیامت میں سے ایک علامت ہے۔
Flag Counter