Maktaba Wahhabi

280 - 352
تقدیر کے اس درجہ کا عام قدریہ نے انکار کیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی کواس امت کے مجوسی قرار دیا ہے۔ جبکہ تقدیر کے اس درجہ کا اثبات کرنیوالوں میں سے ایک قوم نے غلو کا شکار ہوکر بندہ سے اس کی قدرت اور اختیار کو سلب کرلیا ہے ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے افعال واحکام سے اس کی حکمتوں اور مصالح کو خارج کردیا ہے۔ عبارت کی تشریح …شرح… شیخ رحمہ اللہ اس کلام میں اس بات کو بیان کرنا چاہتے ہیںکہ تقدیر کے مذکورہ مراتب کے ساتھ اثبات کرنے اور اس بات میں کہ بندے ا پنے اپنے افعال اپنے اختیار اور ارادہ سے کرتے ہیں ،میں کوئی منافات نہیں ہے ۔ اس سے شیخ رحمہ اللہ کا مقصد ان لوگوں پر رد ہے جن کا یہ زعم ِ باطل ہے کہ ان دونوں باتوں کے اثبات سے تناقض لازم آتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ ان میں سے بعض لوگ اثبات ِقدر میں غلو کا شکار ہوتے ہیں حتی کہ انہوں نے بندے سے افعال پر اس کی قدرت واختیار کو سلب کرلیا ہے ، جبکہ ایک دوسرا گروہ بندوں کے افعال اور ان کے اختیار میں غلوکا شکار ہوا ہے ،یہاں تک کہ انہوں نے بندوں کو ہی ا پنے اپنے افعال کا خالق قرار دے دیا ہے اور یہ کہ ان افعال کا اللہ تعالیٰ کی مشیئت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی ان کے افعال اس کی قدرت کے تحت ہیں۔ پہلے گروہ کو جبریہ کہا جاتا ہے کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ بندہ اپنے افعال پر مجبور ہے اسے اس سلسلہ میں کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ جبکہ دوسرے گروہ کو قدریہ اور نفاۃ کہا جاتا ہے ،کیونکہ یہ لوگ تقدیر کی نفی کرتے ہیں۔ چنانچہ شیخ رحمہ اللہ طائفہ ’’جبریہ‘‘ پر رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں’’ والعباد فاعلون حقیقۃ‘‘ بندے اپنے افعال کے حقیقتاً فاعل ہیں۔
Flag Counter