Maktaba Wahhabi

336 - 352
عمر رضی اللہ عنہ کااپنے ایک بیٹے کے متعلق خبر دینا کہ اس کی اولاد میں ایک عادل پیدا ہوگا۔ صاحبِ موسیٰ (خضر علیہ السلام ) کا قصہ اور اسے بچے کے حال کا علم ہونا۔ دوسری مثال: اس شخص کا قصہ جس کے پاس کتاب کا علم تھا اور اس کا عرشِ بلقیس کو سلیمانعلیہ السلام کے پاس حاضر کرنا۔(یہاں راجح قول یہی ہے کہ ’’الذی عندہ علم من الکتاب ‘‘سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔واللہ اعلم) قصہ اصحابِ کہف ،مریم علیہ السلام کا قصہ ،خالد بن ولید کا قصہ کہ انہوں نے زہر پی لیا لیکن انہیں اس سے کوئی ضرر نہیں پہنچا۔ وقولہ: ’’ والمأثور عن سالف الأمم فی سورۃ الکھف وغیرھا وعن صدر ھذہ الأمۃ من الصحابۃ والتابعین وسائر فرق الأمۃ ۔‘‘ شیخ رحمہ اللہ اس کلام میں ان کرامات کا ذکر کر رہے ہیں جو واقع ہوچکی ہیں اور قرآن اور آثارِ صحیحہ میں ان کا ذکر موجودہے۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں سابقہ امتوں کے حوالے سے جن کرامات کا ذکر ہے ان میں سے مریمعلیہ السلام کا بغیر شوہر کے حاملہ ہونا ہے اور سورئہ کہف میں مذکور اصحابِ کہف ،صاحب موسیٰ (خضرعلیہ السلام ) اور ذوالقرنین کا قصہ ہے۔ اور اس اُمت کے اول طبقہ صحابہ وتابعین رحمھم اللہ سے صحیح سند سے کرامات منقول ہیں مثلاً: عمر رضی اللہ عنہ کا ساریہ کے جیش کو دیکھنا ،حالانکہ عمر رضی اللہ عنہ اس وقت منبر مدینہ پر تھے، اور ساریہ کا جیش مشرق میں نھاوند مقام پر تھا ،اور عمر رضی اللہ عنہ کا ساریہ کو ان الفاظ کے ساتھ نداء دینا ’’یا ساریۃ الجبل‘‘ اور ساریہ نے اس نداء کو سن لیا اور بروقت راہنمائی سے فائدہ اٹھایا اور دشمن کی چال سے بچ گئے۔ قولہ: ’’وھی موجودۃ فیھا الی یوم القیامۃ‘‘ یعنی جب تک امت کے افراد میں ولایت اپنی تمام شروط کے ساتھ موجود رہے گی اس وقت تک امت میں کرامات کا وجود بھی موجود رہیگا۔ (واللہ اعلم)
Flag Counter