Maktaba Wahhabi

66 - 352
سَبْعَ سَمٰوَاتٍ‘‘ سے متعلق ہے ،اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سات آسمان اور سات زمینیں اس لئے پیدا فرمائیں تاکہ تمہیں اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کا علم اور اندازہ ہوجائے ۔نیز تمہیں یہ بھی معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کا علم ہر شیٔ کو محیط ہے ،اور کوئی چیز خواہ وہ کچھ بھی ہو اللہ تعالیٰ کے علم سے باہر نہیں ہے ،آیتِ کریمہ میں ’’عِلْمًا‘‘ کا منصوب ہونا بر بنائے تمییز ہے یا پھر اگر احاط بمعنی علم ہو تو پھر بر بنائے مصدریت ہے ۔ مذکورہ دونوں آیتوں کو پیش کرکے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے علم اور ایسی قدرت کا مالک ہے جو ہر شیٔ کا احاطہ کیئے ہوئے ہے۔ { إِنَّ اللّٰه ھُوَ الرَّزَّاقُ ذُوا الْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ } (الذاریات:۵۸) ترجمہ:’’ اللہ تعالیٰ خود ہی سب کا روزی رساں توانائی والا اور زور آور ہے‘‘ …شرح… آیت ِکریمہ:’’إِنَّ اللّٰه ھُوَ الرَّزَّاقُ ‘‘کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام مخلوقات کو روزی دینے والا اور ان کی مصلحتوں کا خیال رکھنے والا ہے، نیز اللہ تعالیٰ کے رزق کے خزانے بہت وسیع ہیں ،لہذا ضروری ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی رازق نہیں ہوسکتا۔ ’’ ذُوا الْقُوَّۃِ ‘‘سے مراد ایسی قوت اور طاقت کا مالک جو ہرلحاظ سے مکمل ہے اور جسے کبھی بھی کسی قسم کا کوئی ضعف لاحق نہیں ہوسکتا ۔’’الْمَتِیْنُ‘‘ وہ ذات ہے جو قوت اور قدرت کی انتہاء کو پہنچی ہوئی ہے ،جس کو اپنے افعال میں کسی مشقت ،کلفت اور تھکاوٹ لاحق نہیں ہوتی۔لغوی اعتبار سے ’’متین‘‘ متانت سے ہے، جو شدت اور قوت کا معنی دیتا ہے۔ اس آیت ِ کریمہ کو پیش کرنے کا مقصد اللہ تعالیٰ کے اسمِ مبارک ’’الرزاق‘‘ کا اثبات ہے، نیز اللہ تعالیٰ ایک ایسی مکمل قوت کا مالک ہے جس میں کسی کمزوری یا تھکاوٹ کا شائبہ تک نہیں ۔ ان صفات سے اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کے فرض ہونے کا استدلال بھی ہوتا ہے ۔
Flag Counter