الترمذی میں اس مشکل کو حل کر نے کی غرض سے انتہائی عمدہ کام شروع کیا تھا لیکن زند گی نے وفانہ کی اور وہ یہ کام مکمل نہ کر سکے۔فجزاہ اللّٰه خیرا۔
(۹) تخریج سے حدیث پر کتب حدیث وا جزاء وغیرہ کے حوالوں کو جمع کر نا مقصد نہیں ہوتا۔بلکہ تخریج کا مقصد حدیث کے مرتبے کی پہچان کرنا ہے اور طر قِ حدیث پر بحث کرنا اس وقت اہم بلکہ فر ض ہو جاتا ہے جب کسی تا بع یا مدلس کے سماع کی صراحت یا مبہم راوی کے نا م کی صراحت تلاش کرنا مقصود ہو یا قیمتی اسنادی فوائد پیش نظر ہوں۔
(۱۰) دوران تخر یج حدیث کا حوالہ مشہور متداول کتب سے دیناچاہیے، اگر ان میں ہو۔لیکن مشہور کتب میں حدیث بھی ہے لیکن وہ حوالہ دور کی کسی کتاب کا دے رہا ہے تو یہ درست نہیں ہے
مثلا: اگر کوئی سنن ابی داود کی حدیث پر سنن ابی داود کی بجائے مستدر ک حاکم کا حوا لہ لکھتا ہے تو یہ فنی اعتبار سے درست نہیں۔مستد رک حاکم کی بنسبت سنن ابی داود قریب کی مشہور اور متداول کتاب ہے۔امام ابن قطان نے ’’بیان الو ھم والا یھام ‘‘میں مستقل باب باندھا ہے کہ وہ احادیث جن کو علامہ اشبیلی نے دور کی کتب کی طر ف منسو ب کیاہے۔
(۱۱) اگر کوئی حدیث بخاری ومسلم دونوں میں ہے تو حوالہ لکھتے وقت دونوں کا حوالہ لکھناضروری ہے، تاکہ حدیث کو اصل درجہ حاصل ہو۔مثلاً ’’ عذاب القبر حق‘‘ بخار ی ومسلم دونوں میں ہے لیکن اگر کوئی اس پر صرف بخاری کا حوالہ لکھتا ہے تو گو یا قا ری اس حدیث کو صحیح حدیث کے درجو ں میں سے دوسرا درجہ دے رہا ہے، حالانکہ وہ حدیث بخا ری ومسلم (متفق علیہ) کی اعلی درجہ کی حدیث ہے۔
(۱۲) اگر بخاری ومسلم یا صرف بخاری یا صرف مسلم میں ہے تو قیمتی فائدے کی غرض سے ان کے علاوہ دیگر کتبِ سنن وغیرہ کے حوالے لکھنا بھی درست ہے لیکن تاجرانہ سو چ رکھ کر کتاب کا حجم
|