Maktaba Wahhabi

63 - 103
بڑھانے کے لیے بالکل درست نہیں۔ (۱۳) دورانِ تخر یج صر ف کتاب کا نا م لکھ دینا کافی نہیں بلکہ مکمل حوالہ لکھنا چاہیے، مثلاًصحیح بخاری کتاب فلاں، باب فلاں، رقم الحدیث فلاں یا جز فلا ں۔ یا صحیح البخا ری، کتاب فلاں، باب فلاں۔ یا صحیح البخاری رقم الحدیث فلاں، ان طریقو ں سے پہلا طریقہ زیا دہ فوائد پر مشتمل ہے، اس میں کتاب، باب، رقم الحدیث، جز یا جلد اور صفحہ نمبر تمام چیزیں آجاتی ہیں، جس سے قاری کاحدیث تک پہنچنا انتہائی آسان ہو جا تا ہے۔ (۱۴) کتب حدیث اور رجال کا منہج سمجھنابہت ضروری ہے، اس پر بحث آگے آرہی ہے ا ن شاء اللہ (۱۵) تحقیقِ حدیث میں جہاں سند کی تحقیق میں رواۃ پر بحث ہوتی ہے اور سند میں اتصال یا انقطا ع معلو م کرنا ضروری ہو تا ہے۔ وہا ں متن کی تحقیق بھی بہت ضروری ہے، وہ متن شاذ، منکر، مضطرب، مقلوب، وغیرہ کی قسموں میں سے تو نہیں۔گویا صرف سند کی تحقیق کو پیشِ نظر رکھنا غلط ہے، جس طرح ہما رے بعض شیو خ چلے ہیں !!!تحقیق میں متن کو بھی پیشِ نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ (۱۶) اگر سند کے تمام رواۃ ثقہ ہیں اور اس میں صحیح حدیث کی باقی شروط بھی موجود ہیں تواس پر ’’صحیح لذاتہ ‘‘کا حکم لگایا جائے گا۔ (۱۷) اگر سند کے تمام رواۃ ثقہ ہیں سوائے ایک کے اور وہ صدوق درجے کاہوتو اس کاحکم ’’حسن لذاتہ ‘‘ہوگا (۱۸) ضعیف روایت کو بیان کرتے وقت صیغہ تمریض استعمال کیا جائے گا، تاکہ قاری وہم میں نہ پڑے۔ افسوس کہ بعض علماء ضعیف روایت کو بھی صیغہ جزم کے ساتھ روایت کر دیتے ہیں، حالانکہ یہ انداز درست نہیں۔حافظ ابن الصلاح نے اس پر عمدہ بحث کی ہے۔[1]
Flag Counter