Maktaba Wahhabi

112 - 128
فرماتے ہیں:أفرط ابن حبان فقال:یضع۔[1] ایک غلطی پر تنبیہ کرتے ہوئے حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:قال ابن حبان قال البخاری:ترکناہ۔ فاخطأ ابن حبان وانما قال البخاری:ترکناہ حیا سنۃ اثنتی عشرۃ،مات سنۃ ثلاث عشرۃ۔[2] امام ابن حبان مطلقا توثیق میں مطلق متساہل نہیں تھے اس کی تفصیل درج ذیل ہے۔ امام صاحب نے اپنی اس کتاب کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے: ۱۔وہ روات جو جرح وتعدیل دونوں سے خالی ہیں۔ ۲۔مختلف فیہ راوی، یعنی جس پر جرح وتعدیل دونوں وارد ہوں۔ ۳۔جس کے معاملے میں امام صاحب متردد ہوں۔[3] علامہ سخاوی فرماتے ہیں: یعنی ہمارے شیخ حافظ ابن حجر نے اس ناحیہ ( حسن کو بھی صحیح میں شامل کر دینے ) کے سوا امام ابن حبان کی طرف تساہل کی نسبت کی نفی کی ہے۔ فرماتے ہیں: اگر ابن حبان پر تساہل کا اعتراض اس حیثیت سے ہو کہ انہوں نے اپنی صحیح میں حسن حدیث کو بھی درج کردیا ھے تو یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں، بس وہ حسن کو بھی صحیح کا نام دیتے ھیں۔اور اگر یہ تساہل کا الزام شروط میں خفت کی حیثیت سے ہو کہ وہ اپنی صحیح میں وہ( حدیث) لاتے ھیں جسکے روات ثقہ، غیر مدلس ہوں، سب نے ایک دوسرے سے سماع کیا ہو، نہ ارسال ہو اور نہ انقطاع ہی ہو۔ اگر مجہول الحال راوی جرح وتعدیل سے خالی ہو اور اس کا شیخ اور شاگرد دونوں ہی ثقہ ہوں، اور کوئی منکر خبر بیان نہ کی ہو تو وہ ان ( ابن حبان) کے نزدیک ثقہ راوی ھے۔اس قسم کے روات ان کی ’’ کتاب الثقات ‘‘ میں کافی تعداد میں ہیں۔ بعض اوقات ابن حبان پر ایسے روات کو اپنی کتاب میں داخل کرنے کی وجہ سے وہ لوگ اعتراض کرتے ھیں جو ان کی اصطلاح سے ناواقف ھیں۔جبکہ اس پر اعتراض وارد ہی نہیں ہوتا کہ ان
Flag Counter