Maktaba Wahhabi

113 - 128
سے مخاصمہ کیا جائے۔[1] شیخ معلمی یمانی نے ( التنکیل: 1 / 435 436)) امام ابن حبان کی توثیق کو پانچ اقسام میں تقسیم کیا ہے، ان کے ہاں پہلی چار قسمیں اپنے اپنے درجات کے اعتبار سے قبولیت کے درجے پر ہیں اور آخری قسم میں خلل کا اندیشہ ذکر کیا ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "وإن مما یجب التنبیہ علیہ أیضاً ؛ أنہ ینبغی أن یضم إلی ما ذکرہ المعلمی أمر آخر ہام،عرفتہ بالممارسۃ لہذا العلم،قلَّ من نبہ علیہ،وغفل عنہ جماہیر الطلاب،وہو أن من وثقہ ابن حبان وقد روی عنہ جمع من الثقات،ولم یأت بما ینکر علیہ ؛ فہو صدوق یحتج بہ" یعنی جس کی ابن حبان نے توثیق کی ہو، پھر ثقات کی ایک جماعت اس سے روایت کرتی ہو اور اس نے کوئی منکر روایت بیان نہ کی ہو تو وہ صدوق ہے، اس سے حجت پکڑی جائیگی۔[2] اگر قارئین پوری ’’ المجروحین ‘‘ کو دیکھیں تو اندازہ ہو گا کہ امام صاحب روات کی احادیث کا سبر وتتبع کیا کرتے تھے۔ لیکن بات یہ ہے کہ حقائق یہ بتاتے ھیں کہ امام صاحب سے بہرحال ’’ کتاب الثقات‘‘ میں بتقاضائے بشریت روات کے حوالے سے تساھل ہوگیا ہے اور ا س میں انہوں نے ایسے روات کو بھی ذکرکر دیا ہے جنکی مناکیر واضح ھیں۔اگر ’’کتاب الثقات ‘‘ میں مذکور روات کی مناکیر دیکھنا چاھتے ہیں تو’’التاریخ الکبیر ‘‘ للامام البخاری’’ میزان الاعتدال‘‘ للذھبی، ’’لسان المیزان ‘‘ لابن حجر،اور ’’سلسلہ صحیحہ‘‘ سلسلہ ضعیفہ‘‘ اور ’’الارواء ‘‘للعلامہ البانی رحمہم اللہ کو ملاحظہ کیا جائے جن سے معلوم ہو جائے گا کہ ان روایات میں بظاہر کوئی بھی علت معلوم نہیں ہوتی ما سوائے ’’کتاب الثقات ‘‘ میں مذکور روات کے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بہرحال’’کتاب الثقات‘‘ میں مذکور تمام روات ثقہ نہیں، بلکہ خود امام ابن حبان کے نزدیک بھی وہ ثقہ نہیں۔
Flag Counter