Maktaba Wahhabi

39 - 128
کیاجاتا ہے۔ ائمہ متقدمین نے اصول وضع کیے۔۔لیکن اسکے ساتھ انکے تعاملات بھی ہیں جن سے ائمہ متاخرین نے استخراج واستنباط کر کے اصول وضع کیے۔۔۔گویاان اصولوں کی اصل ائمہ متقدمین کا تعامل ہی ٹہرا۔۔بلکل اسی طرح جس طرح جس طرح قیاس کی اصل قرآن مجید وحدیث مبارک میں موجود ہے۔ دکتور شیخ حمزہ مدنی حفظہ اللہ فرماتے ہیں۔: متقدمین کا تحقیق حدیث کے سلسلہ میں جو تعامل تھا اسے ہی تو اہل تدوین نے فن کی صورت دی ہے۔ اگر تدوین کے بجائے سب کچھ ماقبل زمانہ تدوین کے آئمہ کے واضح تھا تو اھل تدوین کا سارا کام جھک مانے اور یبڑیاں مارنے کے سوا کیا رہ جاتا ہے۔ یا للعجب متقدمین کے ہی اتفاقی تعامل کو بعد والوں نے جب ایک فن کی صورت دیدی ھے اور اسے تمام محدثین کے ہاں بلا اختلاف قبول بھی کیا گیا ہے تو اب یہ کونسا انداز ہے کہ ’’ آپ متقدمین محدثین سے طبقات ثابت کردیں میں بات تسلیم کرلوں گا‘‘ بات کرنے سے پہلے سوچیں، پھر اسے تولیں پھر اسے بولیں۔ مزید کہا کہ۔: بلکہ یہ حضرت فن مصطلح کی کون کون سی اصطلاحات کو اپنے سطحی معیار نقد سے متقدمین سے پیش کرسکیں گے؟!یہاں تو سیکڑوں مصطلحات ہیں جن کو فن حدیث کی کتب ہی سے معلوم کیا جاسکتا ہے، متقدمین میں انہیں بطور ضابطہ ومصطلح جاننے کا ھمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ماسوائے متاخرین کے فن حدیث کے!! چنانچہ خطرناک دروازے نہیں کہولنے چاہیں کہ فن حدیث ہی مشکوک ٹھہر جائے۔۔۔( ان) صاحب جیسی باتیں ہم نے منکرین حدیث مثل غامدی وغیرہ سے براہ راست استخفاف حدیث کے ضمن میں سنی ہیں۔ در اصل پرویز وغیرہ نے تو حدیث وسنت کی حجیت کا انکار صاف صاف، لگی لپٹی بغیر کھل کر دیا تھا تو عوام الناس نے بہت شدید رد عمل کا مظاھرہ کیا تو بعد کے منکرین نے انداز تاویلیں اختیار کرلیا ہے۔ اب شبلی، تقی امینی، اصلاحی، غامدی وغیرہ کا انداز
Flag Counter