Maktaba Wahhabi

40 - 128
انکار حدیث یہ ہے کہ’’حدیث کی حجیت تسلیم لیکن محدثین تھے تو آخر انسان تھے اور ان کا مرتب کردہ فن حدیث جامع وکامل نہیں۔۔۔ ان کا فن روایتی وسندی معیار کے اعتبار سے تو معیاری ہے، لیکن درایتی نقد کے پہلو سے ناقص ہے اس لیے احادیث ہم تک محفوظ حالت میں پہنچ نہیں سکیں۔‘‘ذرا یہ بات نوٹ کریں کہ ان منکرین میں بھی اتنی جرات نہ تھی کہ کھل کر محدثین کے فن حدیث پر اسنادی روایتی جہت سے انگلی اٹھاتے لیکن ہمارے آجکل کے بے سمجھ ان سے آگے بڑھ کر اپنے اسلاف پر یہ طعنہ زنی کرتے ہیں کہ نہیں نہیں! محدثین کرام کا فن تحقیق سندی اعتبار سے بھی غیر محفوظ وغیرمعیاری ہیں۔ والعیاذ باللّٰہ اللہ تعالیٰ فتنوں سے بچائے۔ بلکہ متقدمین و متاخرین کے درمیان رسہ کشی کا یہ گھناؤنا کھیل صرف فن حدیث تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ تمام شرعی فنون (عقیدہ، اصول فقہ، منھاج تفسیر، فن تجوید وقراء ات وغیرہ) اور آلی علوم نحو و صرف بلاغہ وغیرہ جو کہ اہل تدوین کی کاوشوں ہی سے محفوظ صورت میں ہم تک پہنچے ھیں اور اگر بالفرض۔۔۔ نعوذ باللہ۔۔۔۔ یہ فنون ہم دریا برد کردیں تو اسلاف اول (صحابہ وتابعین واتباع وغیرہ) کے اجماعی تعامل اور علمی تصورات کو مکمل صورت میں جاننے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ ہی نہیں رہ جاتا۔ کیا مدونین کی علمی و فنی کاوشوں پر عدم اعتماد کروانے حضرات نحو و صرف اور بلاغہ ومنطق وغیرہ کی اساسی باتوں کو بھی تسلیم کرنے کے جاہلانہ نظریہ کے حامل ہیں کیونکہ یہ سب کچھ بھی تو اہل تدوین کی پیش کردہ خدمات ہیں جن پر ہمارے یہ کرم فرما مطمئن نہیں۔ جب لوگوں کی علوم دینیہ میں رسوخ اور فنون سے متعلق اساسی تصورات سے لاعلمی کی حالت یہ ہوکہ وہ علوم کی تدوین اور اس سے متعلقہ بنیادی باتوں سے بھی واقف نہ ہوں لیکن خود کو علامہ فہامہ سمجھ بیٹھیں تو انتظار کریں کہ وہ دیگر بڑے بڑے انکشافات بھی مستقبل قریب میں فرمائیں گے۔ کسی بات سے ناواقفیت ہو تو اس کی معرفت ہونا اور خاموش رہ کر لا اعلم کا اقرار کرنا۔۔۔۔
Flag Counter