Maktaba Wahhabi

90 - 128
ہیں:قول البخاری فی التراجم:سمع فلانا۔لیس حکما منہ بالسماع وانما ہو اخبار بان الراوی ذکر انہ سمع۔کسی راوی کے ترجمہ میں امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ فرمانا کہ اس نے فلاں سے سنا ہے، اس سے امام بخاری سماع کا فیصلہ نہیں کرتے ہیں، بلکہ صرف یہ خبر دیتے ہیں کہ اس راوی سے سماع کا ذکر کیا گیا ہے۔[1] علامہ عمرو عبدالمنعم سلیم فرماتے ہیں کہ یاد رہے کہ امام بخاری نے اپنی تاریخ میں رواۃ کے ترجمہ میں جو بعض رواۃ سے بعض ان رواۃ کا سماع ذکر کیا ہے، جنہوں نے ان سے روایت کی ہے یا محض بعض رواۃ کی بعض رواۃ سے مرویات کا تذکرہ کیا ہے بغیر سماع کے اثبات کے ساتھ تو یہ محض سند کی کیفیت کا بیان ہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے جیسا کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ جب اپنی تاریخ میں کہیں کہ فلاں نے فلاں سے سنا ہے تو یہ کہہ کر امام بخاری رحمہ اللہ اس راوی کے لیے سماع کا اثبات کررہے ہیں۔[2] ۷: اسی طرح رواۃ کا اپنے شیوخ سے ملاقات کا وقت اور جگہ کا بھی بہت ذکر کرتے ہیں۔پھر بعد میں امام بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں اس سے بہت مدد لی کہ راوی اور استاد میں صرف معاصر ت کافی نہیں بلکہ ملاقات بھی ضروری ہے۔ ۸: رواۃ پر مختصر مگر جامع تبصرہ فرماتے ہیں۔تاریخ وفات کا بھی اکثر اہتمام کرتے ہیں۔ ۹: الفاظِ جرح وتعدیل استعمال کرنے میں کمال تقوی و ورع اور احتیاط سے کام لیتے ہیں۔سبحان اللہ۔ اکثر یہی کہتے تھے: فیہ نظر،سکتو اعنہ،ترکوہ، منکر الحدیث۔یہی وجہ ہے کہ امام ذہبی علیہ الرحمۃ نے سیر اعلام النبلاء (۱۲/۴۳۹۔۴۱۱)میں امام بخاری کے رواۃ حدیث پر کلام میں انصاف اور ورع کی شہادت دی ہے۔ سوال: کیا امام بخاری نے کسی راوی کو کذاب کہا ہے،کیونکہ بعض نے اس کا انکار
Flag Counter