Maktaba Wahhabi

116 - 131
’’احرام میں ہم چہروں کو ڈھانپ لیتی تھیں اور ہم اسماء بنت ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہا کے ساتھ ہوتی تھیں۔‘‘ تو معلوم یہ ہوا کہ یہ حدیث ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ مضطرب بھی ہے۔[1]چنانچہ یہ روایت صاحبہ القصہ کی شخصیت کو بھی گدلا کرتی ہے جو کہ حیاء کی پیکر اور قوی ایمان والی تھیں اور یہ روایت اس کے برعکس بتلاتی ہے کہ وہ باریک کپڑوں میں حیاء کے علمبردار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتی تھیں۔ ٭ اس روایت کو بیان کرنے والی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا عمل بھی اس کے مخالف ہے۔ مذکورہ حدیث بھی انہیں سے سنن ابی داؤد میں نقل کی ہے اور اسی کتاب میں عائشہ رضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں کہ: ((کَانَ الرُّکْبَانَ یَمُرُّوْنَ بِنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم مُحْرِمَاتٌ فَاِذَا حَاذَوْنَا سَدَلَتْ اِحْدَانَا جِلْبَابَہَا مِنْ رَأْسِہَا عَلیٰ وَجْہِہَا فَاِذَا جَاوَزُوْنَا کَشَفْنَاہُ۔)) [2] ’’ہمارے پاس سے سوار گزرتے تھے اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احرام میں ہوتی تھیں اور جب وہ ہمارے برابر آتے تو ہم اپنی چادریں اپنے سروں سے چہروں کو لٹکا لیتیں اور جب وہ گزر جاتے پھر ہم چہروں سے چادریں ہٹا لیتیں۔‘‘ اب دیکھیں کہ حضرت اسماء والی حدیث کی راویہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اسی کتاب میں ان سے روایت ہے کہ ہم حج میں بھی چہروں کو ڈھانپتیں غیر محرموں کے سامنے ننگا نہیں کرتی تھیں حالانکہ حج میں عورت نقاب نہیں کر سکتی لیکن چہروں کو پھر بھی ڈھانپا ہے تو اس سے یہ واضح ہوا کہ حضرت اسماء والی روایت صرف ضعیف و مضطرب اور صاحبہ القصہ کی شخصیت کو مکدر کرنے والی نہیں بلکہ خالد بن دریک نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان لگایا ہے کیونکہ ایک تو خالد بن دریک نے ملاقات ہی نہیں کی پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
Flag Counter