Maktaba Wahhabi

118 - 131
ص ۲۸۷ پر کہا ہے کہ ’’اس کو ابو یعلی نے الکبیر میں روایت کیا ہے وفیہ مجالد بن سعید وفیہ ضعف وقد وثق کہ اس میں راوی مجالد بن سعید ہیں جو کہ ضعیف ہیں اور کبھی کبھار ثقہ گردانے جاتے ہیں۔ اور ابن حجر اور امام نسائی فرماتے ہیں کہ لیس بالقوی یہ کمزور تھا قوی نہیں تھا اور ابن معین فرماتے ہیں کہ لا یحتج بحدیثہ اس کی احادیث کے ساتھ حجت نہیں پکڑی جا سکتی اور امام دارقطنی فرماتے ہیں لا یعتبر بہ اس کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ اور ابن سعد فرماتے ہیں کہ کان ضعیفا فی الحدیث یہ حدیث میں ضعیف تھا۔[1] اور علامہ البانی رحمہ اللہ اپنی کتاب ارواء الغلیل کی جلد نمبر ۶ ص ۳۴۷ پر تنبیہ کے تحت فرماتے ہیں کہ جو زبانوں پر مشہور ہو گیا ہے کہ عورت نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر اعتراض کیا… پھر روایت ذکر کرکے فرماتے ہیں فھو ضعیف منکریہ حدیث ضعیف اور منکر ہے جس کو مجالد بن سعید نے شعبی سے اور انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے اور بیہقی نے اس کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے ھذا منقطع یہ حدیث منقطع ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ صرف منقطع ہی نہیں بلکہ مجالد بن سعید کی وجہ سے ضعیف ہے، اور اس کی تفصیل مجلۃ التمدن الاسلامی میں چھپ چکی ہے۔[2] تو معلوم ہوا کہ جس حدیث سے بے پردگی کا استدلال کر رہے ہیں وہ ثابت ہی نہیں تو استدلال کیسا؟ ۳: تیسری دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع میں فضل بن عباس رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھے تھے تو خثعم قبیلہ کی ایک عورت آئی اور اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ پوچھنے لگی تو فضل بن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کی طرف دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کا چہرہ دوسری جانب کر دیا۔[3] تو استدلال یہ ہے کہ اس عورت کا چہرہ
Flag Counter