Maktaba Wahhabi

16 - 131
لیے لباس نازل کیا ہے (پیدا کیا ہے) جو تمہاری شرمگاہوںکو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اورتقویٰ کا لباس اس سے بڑھ کر ہے۔‘‘ جس سے یہ مفہوم سامنے آیا کہ زیب و زینت اور آرائش کے لیے بھی اگرچہ لباس پہننا جائز ہے لیکن لباس میں ایسی سادگی زیادہ پسندیدہ ہے جو انسان کے زہد و ورع اور تقویٰ کا مظہر ہو۔ اور ساتھ ہی تقویٰ کا لباس بیان کیا ہے جو کہ وہ لباس ہے جسے پہن کر انسان تکبر کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور ایمان صالح کے تقاضوں کا اہتمام کرے۔ اور عورت ایمان کے تقاضوں کو اس وقت تک پورا نہیں کر سکتی جب تک ایمان کی بندشوں میں اپنے آپ کو باندھ نہ لے اور وہ سراسر راحت ہے جو کہ پردہ ہے۔ اسی میں اس کا تقویٰ اور خشیت ہے۔ چنانچہ تقویٰ کے لباس سے مراد ایمانی تقاضوں کو پورا کرنے والا اور قلبی کیفیت ہے۔ اگر قلب (دل) میں ایمان ہو گا‘ تقویٰ ہو گا تو کوئی بھی عورت بے پردہ باہر نہیں نکلے گی کیونکہ تقویٰ کامعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یوں بیان کیا ہے: ((اَلْخَوْفُ مِنَ الْجَلِیْلِ وَالْعَمَلُ بِالتَّنْزِیْلِ وَالْقَنَاعَۃُ بِالْقَلِیْلِ وَالتَّزَوَدُّ لِیَوْمِ الرَّحِیْلِ۔)) ’’اللہ کا خوف، قرآن و سنت پر عمل، تھوڑی چیز پر قناعت اور آخرت کے لیے (موت کے دن کے لیے) تیاری کا نام تقویٰ ہے‘‘ جسے اللہ تعالیٰ کا خوف ہو وہ بے پردہ نہیں رہ سکتی، جو قرآن و سنت پر عمل کرتی ہو وہ بے پردہ نہیں رہ سکتی۔ جسے اللہ تعالیٰ نے احسن تقویم میں پیدا کیا اور جنتی عزت دی ہے وہ اس پر قناعت کرتی ہے‘ قرآن و سنت پر عمل کرکے وہ مزید اپنے حسن کا چرچا بے پردگی سے نہیں کرواتی کہ عزت بنے گی اور جسے موت کے دن کا خوف ہو وہ بھی اس گناہ بے لذت میں ملوث نہیں ہو سکتی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تقویٰ کا لبادہ اوڑھنے کی توفیق دے۔ (آمین یا رب العٰلمین)
Flag Counter