Maktaba Wahhabi

83 - 131
کے گھر سے نکلنا یا گھر میں ہی غیر محرموں کے سامنے پھرنا جس سے گویا عورت اپنے سنگھار سے مرد کی شہوت کو للکار رہی ہے اور بلا رہی ہے اس کو تبرج کہتے ہیں تو قرآن مجید میں اسی تبرج سے منع کیا گیا ہے: {وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُولٰی} (الاحزاب : ۳۳) ’’اے نبی کی بیویو! (خطاب امہات المومنین رضی اللہ عنہ کو ہے لیکن مراد تمام مسلمان عورتیں ہیں) قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ سنگھار کا اظہار نہ کرو۔‘‘ چنانچہ قدیم جاہلیت کے تبرج کے معنی میں علامہ ابن کثیر نے امام و مفسر مجاہد رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ عورت اپنے گھر سے نکلتی اور مردوں کے سامنے چلتی (فذالک تبرج الجاھلیۃ) ’’یہی جاہلیت کا تبرج ہے۔‘‘ اور مقاتل بن حیان فرماتے ہیں کہ تبرج کا مطلب یہ ہے کہ عورت اپنا خمار (دوپٹہ) اپنے سر پر تو رکھ لیتی تھی لیکن باندھتی نہیں تھی وہ اپنی گردن اور ہار وغیرہ کو چھپانا چاہتی لیکن اس سے سب کچھ ظاہر ہوتا (وذلک التبرُّج) ’’اور یہ ہی تبرج تھا۔‘‘ [1] اور لفظ (تبرج الجاھلیۃ الاُولیٰ) سے اس مشہور بات کا بطلان بھی ہوا جو عامۃ الناس میں متداول ہے کہ پردہ تو اب آکر مولویوں نے نکالا ہے یہ تو جہالت کے دور میں تھا اور دقیانوسی فکر ہے تو قرآن نے واشگاف الفاظ میں بتلا دیا کہ جہالت میں بے پردگی تھی اور اسلام میں پردہ ہے۔ چنانچہ مذکورہ تقرر سے ہمیں لغوی و اصطلاح شریعت میں تبرج کا معنی یہ سمجھ میں آیا کہ عورت اپنی زینت اور سنگھار کو جب غیر محرموں کے سامنے کرکے آئے تو وہ بے پردہ ہے چہ جائیکہ وہ گلے میں (دوپٹہ جو کہ زینت کو چھپانے کے لیے لینا تھا) جہالت و بے پردگی کا پھندا بنا کر گلی کوچوں اور سڑکوں بازاروں میں دندناتی پھرے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کا صحیح فہم اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Flag Counter